شب قدر کی عبادت 70 ہزار شب کی عبادتوں سے افضل ہے.

آيے شب قدر کی ان متبرک راتوں میں اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر دعا کریں
اور اپنے رب کی خوشنودی حاصل کریں

شب قدر میں قبولیتِ دُعا
شب قدرمیں ایک ایسی ساعت ہے کہ جس میں جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ شب قدر میں ایسی جامع دعا مانگیں جو دونوں جہانوں میں فائدہ بخش ہو۔ مثلاً اپنے گناہوں کی بخشش اور رضائے الٰہی کے حصول کی دعا مانگی جائے۔ ام المومنین سیّدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی یارسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتائیں کہ اگر مجھے لیلة القدر (شب قدر) کا پتہ چل جائے تو میں کونسی دعا مانگوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تو یہ دعا مانگ اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوّ تُحِبُّ العَفوَفَاعفُ عَنِّی ”اے اللہ! بے شک تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو درست رکھتا ہے مجھے بھی معاف کر دے“

18 thoughts on “شب قدر کی عبادت 70 ہزار شب کی عبادتوں سے افضل ہے.”

  1. اللہ کریم نے اس امت کی فضیلت کیلئے امت کو اطاعت وبندگی اور اعمال ِصالحہ کے لیے بے شمار مواقع فراہم کیے ہیں، تاکہ بندے اللہ کی رحمت ومغفرت اور جہنم سے خلاصی جیسے انعامات سے مستفید ہوں، ان بابرکت اوقات میں سے ایک رمضان المبارک کا مہینہ ہے۔
    ماہِ رمضان کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس ماہ میں شبِ قدر ہے، جس میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائی اور اس رات کو دیگر تمام راتوں پر فضیلت وبرتری دی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    ’’إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (1) وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ (2) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ (4) سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ۔ [سورة القدر]
    ’’ہم نے اس قرآن کو شبِ قدر میں نازل کرنا شروع کیا، اور تمہیں کیا معلوم کہ شبِ قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے۔اس میں فرشتے اور روح القدس ہر کام کے انتظام کے لیے اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں۔یہ رات طلوع فجر تک امن وسلامتی ہے۔‘‘

    شیخ ابن عثیمین ؒ فرماتے ہیں:
    اس سورت میں شب قدر کے متعدد فضائل مذکور ہیں۔
    پہلی فضیلت:
    یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شب میں قرآن کریم نازل فرمایا، جو نوع انسانی کے لیے ہدایت ہے اور دنیاوی واخری سعادت ہے۔
    دوسری فضیلت:
    سورت میں اس رات کی تعظیم اور بندوں پر اللہ کے احسان کوبتانے کے لیے سوالیہ انداز اختیار کیا گیا۔ارشاد ربانی ہے: وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ [سورة القدر2] ’’ اورتمہیں کیا معلوم کہ شبِ قدر کیا ہے؟‘‘
    تیسری فضیلت:
    یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
    چھوتی فضیلت:
    اس رات میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے، فرشتے خیر وبرکت اور رحمت کے ساتھہ نزول کرتے ہیں۔
    پانچویں فضیلت:
    یہ رات سلامتی والی رات ہے، چونکہ اس رات میں بندوں کی عذاب وعقاب سے خلاصی ہوتی ہے۔
    چھٹی فضیلت:
    اللہ تعالیٰ نے اس شب سے متعلق پوری ایک سورت نازل فرمائی جو روز قیامت تک پڑھی جائے گی۔
    احادیث نبویہ میں بھی شبِ قدر کے بے شمار فضائل وارد ہیں:
    صحیحین کی روایت ہے نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
    من قام ليلة القدر إيماناً واحتساباً غفر له ما تقدم من ذنبه]متفق عليه]،
    ’’جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔‘‘ آپ ﷺ کے ارشاد’’ ایماناً‘‘ سے اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکت اور اس رات میں عبادت پر اللہ نے جو جو اجر لکھا ہے اس پر ایمان لانا ہے، اور ’’احتسابا ً‘‘ کا مطلب ہے، اجر وثواب کی نیت رکھنا ۔
    اور شب قدر رمضان کے اخیرعشرے میں ہوتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
    تحروا ليلة القدر في العشر الأواخر من رمضان۔[متفق عليه]
    ’’شب ِقدر کو عشرۂ اخیرہ میں تلاش کرو‘‘۔
    اور ایک حدیث میں وارد ہے:
    تحروا ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر من رمضان۔[رواه البخاري]
    ’’شب قدر کو رمضان کے عشرۂ اخیرہ کی وتر راتوں میں تلاش کرو‘‘
    شب قدر پورے سال میں کسی خاص رات کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ یہ رات منتقل ہوتی ہے،کبھی یہ رات اللہ کی مشیت اور حکمت سے مثال کے طور پر 27 ویں شب میں آتی ہے اور کبھی 25 ویں شب میں ، اس پر اللہ تعالیٰ کا قول دلیل ہے:
    التمسوها في تاسعة تبقى، وفي سابعة تبقى، وفي خامسة تبقى۔ [رواه البخاري[۔
    ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، جب نو راتیں باقی رہ جائیں یا سات راتیں باقی رہ جائیں، یا پانچ راتیں باقی رہ جائیں۔ ‘‘
    اللہ تعالیٰ نے اس رات کا علم اپنے بندوں سے مخفی رکھا ہے، تاکہ ان راتوں میں بندے عبادت واذکار کے ذریعے خوب عمل کرے اور اجر وثواب کے ذریعے اللہ کی قربت حاصل کرے۔اسی طرح اس رات کو بندوں سے مخفی رکھنے میں بندوں کی آزمائش بھی مقصود ہے تاکہ اس رات کے طلبگار کو محنت ومشقت پر اس رات کے فضائل حاصل ہوں ۔
    (بحوالہ گوگل شرچ)

  2. کون سی رات “شب قدر” ہے ؟

    عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    التمسوها في العشر الاواخر من رمضان ليلة القدر في تاسعة تبقى، في سابعة تبقى، في خامسة تبقى
    شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے ( یعنی آخری دس دِن اور راتوں میں ) طلب کرو ، شبِ قدر نویں میں باقی رہے گی ، ساتویں میں باقی رہے گی پانچویں میں باقی رہے گی۔صحيح البخاري , كتاب فضل ليلة القدر , باب تحري ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر , حديث:2060
    عُبادہ بن صامت رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شبِ قدر کے بارے میں بتانے کے لیے آئے ، تو مُسلمانوں میں سے دو آدمیوں نے جھگڑا کیا ( یعنی شبِ قدر کے معاملے میں جھگڑا کیا ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    خرجت لاخبركم بليلة القدر، فتلاحى فلان وفلان، فرفعت، وعسى ان يكون خيرا لكم، فالتمسوها في التاسعة والسابعة والخامسة
    میں اِس لئیے باہر آیا تھا کہ تُم لوگوں کو شبِ قدر کے بارے میں بتاؤں لیکن فُلان اور فُلان نے جھگڑا کیا تو شبِ قدر کو اُٹھا لیا گیا ، اور اُمید ہے کہ اِس کا اُٹھا لیا جانا تُمہارے لئیے خیر ہو گا ،
    پس تُم شبِ قدر کو نویں ، ساتویں اور پانچویں میں طلب کرو (یعنی آخری عشرے کی اِن راتوں میں شبِ قدر کو ڈھونڈو) ۔
    صحيح البخاري , كتاب فضل ليلة القدر , باب رفع معرفة ليلة القدر لتلاحي الناس , حديث:2062
    ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    ليلة القدر ليلة سابعة أو تاسعة و عشرين إن الملائكة تلك الليلة في الأرض أكثر من عدد الحصى
    شبِ قدر ستائیسویں یا اُنتسویں رات ہے ، بے شک اِس رات میں فرشتے زمین پر کنکریوں سے بھی زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں
    (علامہ البانی کی تحقیق کے مطابق یہ حدیث حسن ہے)
    صحیح الجامع الصغیر , حديث:9604
    معاویہ بن ابی سُفیان رضی اللہ عنہُما کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
    ليلة القدر ليلة سبع وعشرين
    شبِ قدر ستائیسویں (27ویں) رات ہے۔
    (علامہ البانی کی تحقیق کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے)
    سنن أبي داود , كتاب شهر رمضان , باب من قال سبع وعشرون , حديث:1388
    صحیح الجامع الصغیر , حديث:9605
    (بحوالہ گوگل سرچ)

  3. وقول الله تعالى ‏ {‏ إنا أنزلناه في ليلة القدر * وما أدراك ما ليلة القدر * ليلة القدر خير من ألف شهر * تنزل الملائكة والروح فيها بإذن ربهم من كل أمر * سلام هي حتى مطلع الفجر‏}‏‏.‏ قال ابن عيينة ما كان في القرآن ‏ {‏ ما أدراك‏}‏ فقد أعلمه،‏‏‏‏ وما قال ‏ {‏ وما يدريك‏}‏ فإنه لم يعلمه‏.‏
    اور (سورۃ القدر میں) اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ہم نے اس (قرآن مجید) کو شب قدر میں اتارا۔ اور تو نے کیا سمجھا کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس میں فرشتے، روح القدس (جبرائیل علیہ السلام) کے ساتھ اپنے رب کے حکم سے ہر بات کا انتظام کرنے کو اترتے ہیں۔ اور صبح تک یہ سلامتی کی رات قائم رہتی ہے۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ قرآن میں جس موقعہ کے لیے ”ماادرٰک“ آیا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا ہے اور جس کے لیے ”ما یدریک“ فرمایا اسے نہیں بتایا ہے۔
    حدیث نمبر: 2014
    حدثنا علي بن عبد الله،‏‏‏‏ حدثنا سفيان،‏‏‏‏ قال حفظناه وإنما حفظ من الزهري عن أبي سلمة عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏”‏ من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه،‏‏‏‏ ومن قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه ‏”‏‏.‏ تابعه سليمان بن كثير عن الزهري‏.‏
    ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے اس روایت کو یاد کیا تھا اور یہ روایت انہوں نے زہری سے (سن کر) یاد کی تھی۔ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور احتساب (حصول اجر و ثواب کی نیت) کے ساتھ رکھے، اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ اور جو لیلۃالقدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ نماز میں کھڑا رہے اس کے بھی اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، سفیان کے ساتھ سلیمان بن کثیر نے بھی اس حدیث کو زہری سے روایت کیا۔
    صحیح بخاری(کتاب لیلۃ القدر)

  4. شبِ قدر
    میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے دیوانو! شب قدر کی فضیلت قرآن و حدیث سے صراحۃ ً ثابت ہے ۔شب قدر عظمت و تقدیس فضائل و کمالات کا مخزن ہے ، شب قدر کو تمام راتوں پر فوقیت حاصل ہے کیوں کہ اس رات میں رحمت الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور شب قدر کی اہمیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ خالق لیل ونہارجل جلالہ نے اس کی تعریف وتوصیف میں مکمل سورت نازل فرمادیا ۔ارشاد ہوتا ہے ۔
    اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ وَمَا اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاذْنِ رَبِّھِمْ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ سلٰمٌ ھِیَ حَتّٰی مَطْلِعِ الْفَجْرِo
    بے شک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا اور تم نے کیا جانا کیا شب قدر، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر اس میں فرشتے اور جبرئیل اتر تے ہیں ۔اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لئے وہ سلامتی ہے ۔صبح چمکنے تک۔ (کنز الایمان)
    وجہ تسمیہ
    مفسر شہیر حضرت علامہ پیر کرم شاہ ازہری علیہ الرحمہ امام زہری کا قول نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : سمیت بھا للعظمۃ والشرف …….لان العمل فیہ یکون ذا قدر عند اللہ(تفسیر مظہری)
    علامہ قرطبی نے اس رات کولیلۃ القدر کہنے کی وجہ یوں بیان کی ہے ’’قیل سمیت بذلک لانہ انزل فیھا کتابا ذا قدر علیٰ رسول ذی قدر علیٰ امۃ ذات قدر‘‘یعنی اسے شب قدر اس لئے کہتے ہیں کہا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس میں ایک بڑ ی قدر ومنزلت والی کتاب ، بڑ ے قدر ومنزلت والے رسول پر اور بڑ ی قدر ومنزلت والی امت کے لئے نازل فرمائی۔
    (ضیاء القرآن جلد !۵ص!۶۱۹)
    شبِ قدر احادیث کے آئینہ میں
    حضرت ابو ہریرہ ص فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے ایمان ویقین کے ساتھ روزے رکھے اس کے پچھلے گناہ بخش دئے جاتے ہیں ۔اور جو شب قدر میں ایمان ویقین کے ساتھ (یعنی ثواب کی امید سے )قیام(یعنی نوافل، تلاوت، ذکر، نعت، درود، دعاو توبہ ، واستغفار )کرے تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ۔ (بخاری شریف)
    اور حضرت انس بن مالک نے فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ شروع ہوا تو حضور اقدس نور مجسم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ یہ مہینہ تم میں آیا ہے اور اس میں ایک رات ایسی آئی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے تو جو شخص اس کی برکتوں سے محروم رہا وہ تمام بھلائیوں سے محروم رہا ، اور محروم نہیں رکھا جاتا اس کی بھلائیوں سے مگر وہ جوبالکل بے نصیب ہو ۔ (ابن ماجہ)
    شب قدر کونسی رات ہے
    یہ بات تو طے ہے کہ شب قدر رمضان المبارک میں کوئی رات ہے ۔لیکن تاریخ کے تعین میں علماء کا بڑ ا اختلاف ہے چالیس کے قریب اقوال ہیں ۔لیکن صحیح حدیث میں یہ الفاظ موجود ہیں ’’تحروا لیلۃالقدر فی العشرالاواخرمن رمضان‘‘ رمضان شریف کے آخری عشرہ میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو ۔دوسری حدیث پاک میں ہے کہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔اکثر علماء کرام کی رائے یہ ہے کہ رمضان المبارک کی ستائیسویں رات شب قدر ہے امام الائمہ کا شف الغمہ سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف یہی ہے ۔
    اور الفاظ قرآن سے بھی اس طرف اشارہ ملتا ہے ۔مثلا سورۃ القدر میں ’’ لیلۃ القدر‘‘ تین جگہ ارشاد ہوا اور لیلۃ القدر میں نو حروف ہیں ، نو کو تین سے ضرب دینے میں حاصل ضرب ستائیس ہوتا ہے ۔
    روایات کے پیش نظر پورے عشرہ اواخر رمضان میں شب بیداری کرے ، نوافل ، توبہ واستغفار وغیرہ کی کثرت کرے اگر ذمہ میں قضا نماز باقی ہو(معاذ اللہ!)تو نوافل کی بجائے قضا نمازوں کو ادا کرے
    شبِ قدر کی علامتیں
    حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ رات اکائی کی ہے یعنی اکیسویں یا تیئسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا آخری رات۔ یہ رات بالکل صاف اور ایسی روشن ہوتی ہے کہ گویا چاند چڑ ھا ہوا ہے ، اس میں سکون اور دلجمعی ہوتی ہے ، نہ سردی زیادہ ہوتی ہے نہ گرمی، صبح تک ستانے نہیں جھڑ تے ، اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس کی صبح کو سورج تیز شعاعوں سے نہیں نکلتا بلکہ چودہویں رات کی طرح صاف نکلتا ہے ۔
    میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے دیوانو! مذکورہ حدیث شریف میں جو شبِ قدر کی علامتیں بیان کی گئی ہیں ان کے ذریعہ شبِ قدر کو تلاش کرنا بالکل آسان ہو گیا ہے ، اب ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ مذکورہ علامتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے شب قدر کو تلاش کریں اور اس میں خوب دلجمعی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
    شب قدر کیوں عطا ہوئی؟
    میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے دیوانو! شبِ قدر عطا کئے جانے جانے کے بارے میں کئی روایتیں ملتی ہیں ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی کونین صاحبِ قاب قوسین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نبی اسرائیل میں ایک شمسون نامی عابد تھا جس نے ہزار ماہ اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ اس پر صحابۂ کرام کو تعجب ہوا کہ ہمارے اعمال کی کیا حیثیت؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس امت کو ایک رات عطا فرمائی جو اس غازی کی مدتِ عبادت سے بہتر ہے ۔
    اسی سلسلے میں ایک اور روایت علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے مؤطا امام مالک کے حوالے سے تحریر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پچھلی امتوں کی عمریں دکھائی گئیں ، آپ نے دیکھا کہ ان کے مقابل میں آپ کی امت کی عمریں کم ہیں اس سے آپ کو خوف ہوا کہ میری امت کے اعمال ان امتوں کے اعمال تک نہ پہونچ سکیں گے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو شب قدر عطا فرمایا جو ان امتوں کے ہزار ماہ کی عبادت سے بہتر ہے ۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’لیلۃ القدر خیر من الف شہر‘‘
    اسی طرح ایک اور روایت حضرت علی بن عروہ سے ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے چار اشخاص کا ذکر فرمایا جنہوں نے اللہ کی اَسّی برس عبادت کی اور ان کی زندگی کا ایک لمحہ بھی اللہ کی نافرمانی میں نہیں گزرا، آپ نے ان چار اشخاص میں حضرت ایوب، حضرت حزقیل، حضرت یوشع اور حضرت زکریا علیہم السلام کا ذکر فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو یہ سن کر تعجب ہوا تو جبرئیل امین علیہ السلام نازل ہوئے اور عرض کیا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی امت کو ان لوگوں کی اَسّی سال کی عبادت سے تعجب ہوا، اللہ تعالیٰ نے آپ پر اس سے بہتر چیز نازل کر دی ہے اور سورۂ قدر پڑ ھی اور کہا یہ اس چیز سے افضل ہے جس پر آپ کو اور آپ کی امت کو تعجب ہوا تھا۔
    فرشتوں کا نزول
    میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے دیوانو! سورۂ قدر میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا ’’تنزل الملٰئکۃ و الروح فیہا‘‘ اس رات فرشتے اور روح آسمان سے زمین پر اترتے ہیں ۔ شب قدر میں سارے فرشتے نازل ہوتے ہیں یا ان میں سے بعض، اس سلسلے میں مفسرینِ کرام کے چند اقوال ہیں ۔ بعض کا یہ کہنا ہے کہ سارے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور بعض کا یہ کہنا ہے کہ ان میں سے بعض نازل ہوتے ہیں اور بعض کا یہ کہنا ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام سدرۃ المنتہی کے سارے فرشتوں کے ساتھ نازل ہوتے ہیں ۔
    نزولِ ملائکہ کے حوالے سے حدیث پاک میں بھی ذکر ہے ۔
    جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے مروی ہے کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اذا کان لیلۃ القدر ینزل جبریل فی کبکبۃ من الملائکۃ یصلون علیٰ کل عبد قائم او قائد یذکر اللہ عزوجل‘‘یعنی لیلۃ القدر کو جبریل امین فرشتوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ زمین پر اتر تے ہیں اور ملائکہ کا یہ گروہ ہر اس بندے کے لئے دعائے مغفرت اور التجائے رحمت کرتا ہے جو کھڑ ے یا بیٹھے اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوتا ہے ۔
    ایک روایت میں ہے کہ جب شب قدر آتی ہے تو حضرت سیدنا جبرئیل کے ساتھ وہ فرشتے بھی اتر تے ہیں جو سدرۃ المنتہیٰ پر رہنے والے ہیں ۔اور وہ اپنے ساتھ چار جھنڈے لاتے ہیں ، ایک گنبد خضریٰ پر نصب کرتے ہیں ، ایک بیت القدس کی چھت پر ، ایک مسجد حرام کی چھت پر نصب کرتے ہیں اور ایک طور سینا کے اوپر ، اور ہر مومن مرد وعورت کے گھر پر تشریف لے جاتے ہیں اور انہیں سلام کہتے ہیں ، اس رحمت سے شرابی، قاطع رحم اور سود کھانے والے محروم رہتے ہیں ۔ (صاوی بحوالہ متاع آخرت)
    ایک عجیب الخلقت فرشتے کا نزول
    صاحبِ تفسیر روح البیان تحریر فرماتے ہیں کہ ایک فرشتہ ایسا ہے کہ جس کا سر عرش کے نیچے ہے اور دونوں پاؤں ساتوں زمینوں کی جڑ وں میں ، اس کے ایک ہزار سر ہیں اور ہر سر عالم دنیا سے بڑ ا ہے اور ہر سر میں ایک ہزار چہرے اور ہر چہرے میں ہزار منہ، ہر منہ میں ہزار زبانیں ، ہر زبان سے ہزار قسم کی تسبیح و تحمید پڑ ھتا ہے ، ہر زبان کی بولی دوسری زبان سے نہیں ملتی، وہ منہ سے زبان کھولتا ہے تو تمام آسمان کے فرشتے اس کے ڈر سے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں کہ کہیں اس کے چہرے کے انوار انہیں جلا نہ دیں ۔ ہر صبح و شام ان تمام مونہوں سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتا ہے ۔ یہ فرشتہ شب قدر میں زمین پر اتر کر رسولِ ا کرم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اہلِ ایمان روزہ دار مردوں اور عورتوں کے لئے طلوعِ فجر تک استغفار کرتا ہے ۔ (روح البیان)
    فرشتے کیوں نازل ہوتے ہیں ؟
    میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے دیوانو! آپ یہ سوچتے ہوں گے کہ آخر شب قدر میں فرشتے کیوں نازل ہوتے ہیں ؟ جب کہ فرشتے خود تسبیح و تقدیس اور تہلیل کے تونگر ہیں ، قیام، رکوع اور سجود ساری عبادات سے سرشار ہیں پھر انسانوں کی وہ کون سی عبادت ہے جسے دیکھنے کے شوق میں وہ انسانوں سے ملاقات کی تمنا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کر کے زمین پر نازل ہوتے ہیں ؟آئیے اس سلسلے میں چند باتیں ملاحظہ کرتے ہیں تاکہ اس رات عبادت کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔
    محدثینِ کرام نے اس کی وجہ بیان کی ہے کہ کوئی شخص خود بھوکا رہ کر اپنا کھانا کسی اور ضرورت مند کو کھال دے یہ وہ نادر عبادت ہے جو فرشتوں میں نہیں ہوتی، گنا ہوں پر توبہ اور ندامت کے آنسو بہانا اور گڑ گڑ انا، اللہ سے معافی چاہنا، اپنی طبعی نیند چھوڑ کر اللہ کی یاد کے لئے رات کے پچھلے پہر اٹھنا اور خوفِ خدا سے ہچکیاں لے لے کر رونا، یہ وہ عبادتیں ہیں جن کا فرشتوں کے یہاں کوئی تصور نہیں کیوں کہ نہ وہ کھاتے ہیں ، نہ پیتے ہیں ، نہ گناہ کرتے ہیں ، نہ سوتے ہیں ۔
    حدیثِ قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’گناہ گاروں کی سسکیوں اور ہچکیوں کی آواز مجھے تسبیح و تہلیل کی آوازوں سے زیادہ پسند ہے ‘‘ اس لئے فرشتے یادِ خدا میں آنسو بہانے والی آنکھوں کو دیکھنے اور خوفِ خدا سے نکلنے والی آہوں کو سننے کے لئے زمین پر اترتے ہیں ۔
    امام رازی علیہ الرحمہ نے اس کہ وجہ یہ بیان فرمائی کہ انسان کی عادت ہے کہ وہ علما اور صالحین کے سامنے زیادہ اچھی اور زیادہ خشوع و خضوع سے عبادت کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس رات فرشتوں کو بھیجتا ہے کہ اے انسانو! تم عبادت گزاروں کی مجلس میں زیادہ عبادت کرتے ہو آؤ اب ملائکہ کی خضوع اور خشوع سے عبادت کرو۔
    فرشتوں کے نزول کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انسان کی پیدائش کے وقت فرشتوں نے استفسار کیا تھا کہ اسے پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے جو زمین میں فسق و فجور اور خونریزی کرے گا؟ لہٰذا اس رات اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے ان کی امیدوں سے بڑ ھ کر اجر و ثواب کا وعدہ کیا، اس رات کے عبادت گزاروں کو زبانِ رسالت سے مغفرت کی نوید سنائی، فرشتوں کی آمد اور ان کی زیارت اور سلام کرنے کی بشارت دی تاکہ اس کے یہ رات جاگ کر گزاریں ، تھکاوٹ اور نیند کے باوجود اپنے آپ کو بستروں اور آرام سے دور رکھیں تاکہ جب فرشتے آسمان سے اتریں تو ان سے کہا جا سکے یہی وہ ابنِ آدم ہیں جن کی خونریزیوں کی تم نے خبر دی تھی، یہی وہ شر ر خاکی ہے جس کے فسق و فجور کا تم نے ذکر کیا تھا، اس کی طبیعت اور خلقت میں ہم نے رات کی نیند رکھی ہے لیکن یہ اپنے طبعی اور خلقی تقاضوں کو چھوڑ کر ہماری رضا جوئی کے لئے رات سجدوں اور قیام میں گزار رہا ہے ۔
    فرشتوں کا سلام
    میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے دیوانو! امام رازی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ آخرت میں فرشتے مسلمانوں کی زیارت کریں گے اور آ کر سلام عرض کریں گے ’’الملٰئکۃ یدخلون علیہم من کل باب سلام علیکم‘‘ فرشتے جنت کے ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے اور آ کر سلام کریں گے اور لیلۃ القدر میں یہ ظاہر فرمایا کہ اگر تم میری عبادت میں مشغول ہو جاؤ تو آخرت تو الگ رہی دنیا میں بھی فرشتے تمہاری زیارت کو آئیں گے اور آ کر سلام کریں گے ۔
    شب قدر اور تدابیرِ امور
    علامہ قرطبی مجاہد کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس رات میں زندگی، موت اور رزق وغیرہ کے احکام مدبراتِ امور کے حوالے کر دیتا ہے ۔ یہ چار فرشتے ہیں اسرافیل، میکائیل، عزرائیل اور جبرائیل علیہم السلام۔
    حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ اس سال جس قدر بارش ہونی ہے ، جس قدر رزق ملنا ہے اور جن لوگوں کو جینا یا مرنا ہے اس کو لوحِ محفوظ سے نقل کر کے لکھ دیا جاتا ہے حتی کہ لیلۃ القدر میں یہ بھی لکھ دیا جاتا ہے کہ کون کون شخص اس سال بیت اللہ کا حج کرے گا، ان کے نام ان کے آباء کے نام لکھ دئے جاتے ہیں ۔ نہ ان میں کوئی کمی کی جاتی ہے نہ کوئی اضافہ۔
    شب قدر کی دعا
    اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہا!اگر مجھ کو شب قدر معلوم ہوجائے تو میں اس میں کیا کروں ؟آپ نے فرمایاکہ یہ دعا پڑ ھا کرو۔اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ (ترمذی شریف)
    (بحوالہ گوگل سرچ)

  5. شب قدر
    اﷲ جل ِ شانہ نے حضرت خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس آخری امت کو بڑی رحمتوں اور نعمتوں سے نوازا ہے، دوسری ساری امتوں کے مقابلہ میں اس امت کو کچھ خصوصی امتیازات عطافرمائے ہیں، انھیں امتیازی فضائل میں سے شب ِ قدر بھی ہے، جو سال بھر میں ایک مرتبہ آتی ہے اور صرف اس رات کو عبادات میں مشغول کردینے والوں کو ایک ہزار مہینے کی خالص عبادت سے بھی زیادہ ثواب ملتا ہے، قرآن کریم کا ارشاد ہے: لیلۃ القدر خیر من الف شھر۔ (یعنی ایک شب ِ قدر بہتر ہے ایک ہزار مہینے سے ) قرآن کریم نے اس رات کی عبادت کو ایک ہزار مہینے کی عبادت کے برابر نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ بہتر فرمایا ہے اور اس میں زیادت کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی کہ کتنا زیادہ، اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے کیا بعید ہے کہ وہ اس کو ایک ہزار سال کے برابر بنادیں ۔
    امت ِ مرحومہ پر اس خاص امتیازی انعام کی ایک وجہ حدیث شریف میں یہ آئی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو پچھلی امتوں کی کچھ طویل طویل عمریں بطور ِ وحی دکھلائی گئیں (جو تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سینکڑوں سال کی ہوتی تھیں) اس کے بالمقابل یہ بھی معلوم ہوا کہ آپؐ کی امت کی عمریں ان کے مقابل بہت کم ہیں، جیسا کہ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر کے درمیان ہوں گی، اس واقعہ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلب ِ مبارک پر یہ اثر کیا کہ اس حساب سے تو میری امت اعمال ِ صالحہ اور عبادات میں سب سے کم رہ جائے گی، اﷲ تعالیٰ نے آپ کے قلب ِ مبارک سے اس غم کو دور کرنے کے لئے لیلۃ القدر کی سورۃ نازل فرماکر بتلادیا کہ آپ فکر نہ کریں، اس امت کے عمل کی قیمت بہت بڑھادی گئی ہے کہ صرف ایک رات میں ایک ہزار مہینے کی عبادت سے زیادہ ثواب حاصل کرسکتے ہیں ،تاکہ دوسری امتوں سے پیچھے نہ رہ جائے، یہ حدیث مؤطا امام ِ مالکؒ نے اور ترغیب وترہیب میں حافظ منذریؒ نے نقل کی ہے۔
    شب ِقدر کو شب ِ قدر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ تمام مخلوقات کی عمریں اور رزق اور بھلے بُرے مختلف قسم کے حالات جو روز ِ اوّل سے لوح ِ محفوظ میں لکھے ہوئے ہیں ،اس رات میں اس سال کاپورا بجٹ اور سب کی مقداریں فرشتوں کے حوالہ کردی جاتی ہیں کہ کس کی کتنی عمر ہوگی ، کتنا رزق ملے گا ، وہ کیسے کیسے حالات سے گذرے گا ، سورۂ دخان کی آیت میں حق تعالیٰ نے اس رات کو لیلہ مبارکہ کے نام سے ارشاد فرمایا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہے: فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ، اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا۔ یعنی اس رات میں طے کردیا جائے گا کہ ہر کام حکمت والا ہماری طرف سے، اس رات کی خصوصیت یہ ہے کہ نزول ِ قرآن اس رات میں ہوا اور در ِ منثور کی ایک روایت میں ہے کہ اسی رات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اُٹھایا گیا، سنن ِ بیہقی میں حضرت انسؓ کے واسطے سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ شب ِ قدر میں جبرئیل امین فرشتوں کے ایک گروہ کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں اور جس شخص کو ذکر وعبادات میں مشغول دیکھتے ہیں اس کے لئے رحمت کی دعاء کرتے ہیں ۔
    صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔ یعنی جس شخص نے قیام کیا شب ِ قدر میں ایمان کے ساتھ خالص ثواب کی نیت سے کوئی دنیوی غرض نہیں اس کے سب پچھلے گناہ معاف ہوگئے، قیام کرنے سے مراد کسی عبادت میں لگنا ہے جس میں نماز پڑھنا بھی داخل ہے اور ذکر وتلاوت وغیرہ بھی۔
    گناہوں کی معافی کے متعلق شریعت کا اصل ضابطہ یہ ہے کہ صغیرہ گناہ تو نفلی عبادات اور دوسری عبادات اور دوسری نیکیوں کے ذریعہ بھی خود بخود معاف ہوجاتے ہیں، مگر کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے، اس حدیث میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صغیرہ گناہ کی معافی کی قید نہیں لگائی بلکہ عام رکھا، اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ اول تو مومن سے گناہ ِ کبیرہ میں مبتلا ہونا بہت بعید ہے اور اگر ہو بھی گیا تو مومن کو اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک توبہ نہ کرلے، اور فرض کروکہ پہلے غفلت ہی ہوتی رہی اب جبکہ شب ِ قدر میں وہ اﷲ کے سامنے کھڑا ہے اور اس سے اپنی مغفرت کی دعاء اور دوسری مرادیں مانگ رہا ہے تو یقینا اس کو اپنے پچھلے کئے ہوئے گناہوں پر ندامت وشرمندگی بھی ہوگی اور آئندہ ان سے بچتے رہنے کا پختہ ارادہ بھی کرے گا ، اسی کا نام توبہ ہے، اس سے معلوم ہواکہ شب ِ قدر کی عبادت کے لئے پچھلے گناہوں سے توبہ لازم وملزوم ہیں۔
    ایک حدیث میں ہے کہ حضرت صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ آج شب ِ قدر ہے تو میں کیا دعا مانگوں؟ آپؐ نے فرمایا کہ یہ دعا کرو: اللّٰھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی۔ یعنی اے میرے معبود! آپ بہت معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں ، میرے گناہوں کو معاف فرما، اس حدیث میں شب ِ قدر کی سب سے بڑی عبادت توبہ ہی کو قرار دیا ہے ، اس لئے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اس مبارک رات میں اپنے سب پچھلے گناہوں سے توبہ کرے اور معافی مانگنے کا پورا اہتمام کرے۔
    خلاصہ یہ ہے کہ شب ِ قدر اس امت کے لئے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے امتیازی انعام ہے کہ ایک رات کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینے کے برابر نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کردیا ہے، ایک ہزار مہینے تراسی برس چار ماہ ہوتے ہیں ، پھر اس میں رحمت کے فرشتوں کا نزول اور عبادت گذار کے لئے رحمت کی دم بدم دعائیں بھی ہیں اور تمام گناہوں سے مغفرت کا وعدہ بھی اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ منادی بھی ہوتی ہے کہ ہم سے جو دعا مانگی جائے گی قبول کریں گے، یہی وجہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص شب ِ قدر کی برکات سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا اور اس بھلائی سے صرف وہی شخص محروم ہوگا جو بڑا ہی بدنصیب ہوگا، یہ روایت ابن ِ ماجہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔
    اب یہ سوال باقی رہ گیا کہ مبارک رات کونسی رات ہے؟ اس کے متعلق اتنی بات تو خود قرآن کریم نے متعین کردی ہے کہ یہ رات ماہ ِ رمضان کی کوئی رات ہوگی، اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اس کی مزید توضیح وتعیین بذریعہ وحی الٰہی اس طرح فرمائی ہے کہ مشکوٰۃ میں بحوالہ بخاری شریف حضرت صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب ِ قدرکو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو، یعنی اکیس(۲۱) پچیس (۲۵) ستائیس (۲۷) انتیس(۲۹)ان راتوں میں سے کوئی رات شب ِ قدر ہوگی اور بعض روایات میں ستائیسویں شب کے متعلق مزید رجحان ثابت ہوتا ہے،یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ اسلامی احکام میں اکیسویں شب وہ کہلائے گی جو ۲۰/تاریخ کے بعد ۲۱/تاریخ سے پہلے آئے، اسی طرح ۲۳، ۲۵وغیرہ کو سمجھئے ، اﷲ تعالیٰ کے احکام کی حکمتوں کو پورا کون دریافت کرسکتا ہے، یہاں بالتصریح کسی ایک رات کو متعین کرکے نہ بتلانے اور عشرہ اخیرہ رمضان کی پانچ طاق راتوں میں دائر کردینے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ انسان کے شوق ِ عبادت اور فکر ِ آخرت کی آزمائش ہو کہ شب ِ قدر کی برکات حاصل کرنے کے لئے ان پانچوں راتوں میں بیدار رہ کر عبادت کی کوشش کرے، غور کیجئے کہ سرکاری اور نجی ملازمتوں میں کتنی ملازمتیں ایسی ہیں کہ ان میں ملازم کو پوری رات بیدار رہناپڑتا ہے، ہوائی جہازوں کے پائلٹ، ریلوں کے چلانے والے رات کی شفٹوں میں کام کرنے والے ، ملوں اور کارخانوں کے مزدور فانی فوائد اور چند ٹکوں کی خاطر کتنی راتیں جاگ کر گذارتے ہیں ۔ اگر اﷲ کے نیک بندے سال بھر میں صرف پانچ راتیں اتنی بڑی نعمت کے لئے جاگیں کہ تراسی سال چار ماہ کی عبادت کا ثواب ملے گا، فرشتوں کی دعائیں ملیں گی،سب پچھلے گناہوں کی مغفرت حاصل ہوگی ، دین ودنیا کی سب مرادیں حاصل ہوں گی تو کیا مشکل کام ہے ۔ اور قربان جائیے حق تعالیٰ کے فضل وانعام کے ان راتوں میں بھی تمام رات جاگنا شرط نہیں کچھ سوبھی رہے تو اس مقصد میں خلل نہیں آتا۔
    اور حضرت سعید بن مسیب ؒ کی روایت تویہ ہے کہ جو شخص اسی رات میں عشاء کی نماز جماعت سے پڑھے پھر صبح کی نماز جماعت سے پڑھ لی وہ بھی لیلۃ القدر کی برکات سے محروم نہیں رہتا، پھر یہ رات غروب ِ آفتاب کے بعد سے شروع ہوجاتی ہے جو بیمار ہو یا بہت کمزور یا کم ہمت ہوں اور مغرب کے بعد سے ہی عبادت میں لگ جائیں ، نماز ِ عشاء جماعت سے پڑھیں تو وہ بھی شب ِ قدر کی خیر وبرکت سے محروم نہیں ہوں گے، اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ان راتوں میں جاگنے اور عبادت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
    یہ بات سب مسلمانوں کو یاد رکھنی چاہئے کہ ایسی خاص راتوں میں اپنے اور اپنے متعلقین کے لئے دعاء تو سبھی کریں گے، ضرورت اس کی ہے کہ پورے عالم ِ اسلام کے مسلمانوں کے لئے دعاء کریں کہ اﷲ تعالیٰ ان کو تمام ظاہری اور باطنی فتنوں اور سب پریشانیوں سے محفوظ رکھیں ۔

  6. شب قدر نزولِ قرآن کی رات
    قرآن کی آیات سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید ماہ مبارک میں نازل ہوا ہے :” شہر رمضان الذی انزل فیہ القراٰن “ (بقرہ۔ ۱۸۵) اور اس تعبیر کا ظاہر یہ ہے کہ سارا قرآن اسی ماہ میں نازل ہوا ہے ۔
    اور سورہ قدر کی پہلی آیت میں مزید فرماتا ہے : ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا “۔ (انّآ انزلناہ فی لیلة القدر)
    اگر چہ اس آیت میں صراحت کے ساتھ قرآن کا نام ذکر نہیں ہوا ، لیکن یہ بات مسلم ہے کہ ” انّا انزلناہ“ کی ضمیر قرآن کی طرف لوٹتی ہے اور اس کا ظاہری ابہام اس کی عظمت اور اہمیت کے بیان کے لیے ہے ۔
    ” انّا انزلناہ“ ( ہم نے اسے نازل کیا ہے ) کی تعبیر بھی اس عظیم آسمانی کتاب کی عظمت کی طرف ایک اور اشارہ ہے جس کے نزول کی خدا نے اپنی طرف نسبت دی ہے مخصوصاً صیغہ متکلم مع الغیر کے ساتھ جو جمع کامفہوم رکھتا ہے ، اور یہ عظمت کی دلیل ہے ۔
    اس کا شب” قدر“ میں نزول وہی شب جس میں انسانوں کی سر نوشت اور مقدرات کی تعین ہوتی ہے ۔ یہ اس عظیم آسمانی کتاب کے سرنوشت ساز ہونے کی ایک اور دلیل ہے۔
    اس آیت کو سورہ بقرہ کی آیت کے ساتھ ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شب قدر ماہ مبارک رمضان میں ہے ، لیکن وہ کون سی رات ہے قرآن سے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا ۔ لیکن روایات میں اس سلسلہ میں بھی اور دوسرے مسائل کے بارے میں بھی گفتگو کریں گے۔
    یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تاریخی لحاظ سے بھی اور قرآن کے مضمون کے پیغمبر اکرم کی زندگی سے ارتباط کے لحاظ سے بھی یہ مسلم ہے کہ یہ آسمانی کتاب تدریجی طور پر اور ۲۳ / سال کے عرصہ میں نازل ہوئی ہے ۔ یہ بات اوپر والی آیات سے جو یہ کہتی ہیںکہ ماہ رمضان میں اور شب قدر میں نازل ہوئی، کس طرح ساز گار ہوگی؟
    اس سوال کا جواب:۔ جیسا کہ بہت محققین نے کہا ہے ۔ یہ ہے کہ قرآن کے دو نزول ہیں ۔
    ۱۔ نزول دفعی : جو ایک ہی رات میں سارے کا ساراپیغمبراکرم کے پاس قلب پریا بیت المعمور پر یا لوح محفوظ سے نچلے آسمان پر نازل ہوا۔
    ۲۔ نزول تدریجی : جو تیئس سال کے عرصہ میں نبوت کے دوران انجام پایا ۔ ( ہم سورہ دُخان کی آیہ ۳ جلد ۱۲ تفسیر نمونہ ص ۲۶سے آگے اس مطلب کی تشریح کے چکے ہیں )۔
    بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ آغازِنزول ِ قرآن شب قدر میں ہواتھا، نہ کہ سارا قرآن ، لیکن یہ چیز آیت کے ظاہر کے خلاف ہے ، جو کہتی ہے کہ ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے ۔
    قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن کے نازل ہونے کے سلسلے میں بعض آیات میں ” انزال“ اور بعض میں ” تنزیل“ تعبیر ہوئی ہے ۔ اور لغت کے کچھ متنوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ” تنزیل “ کا لفظ عام طور پر وہاں بولا جاتا ہے جہاں کوئی چیز تدریجاًنازل ہو لیکن ” انزال “ زیادہ وسیع مفہوم رکھتا ہے جو نزول دفعی کو بھی شامل ہوتا ہے ۔ ۱
    تعبیر کایہ فرق جو قرآن میں آیاہے ممکن ہے کہ اوپر والے دو نزولوں کی طرف اشارہ ہو۔
    بعد والی آیت میں شب قدر کی عظمت کے بیان کے لیے فرماتاہے :” تو کیا جانے کہ شب قدر کیا ہے “۔( وما ادراک مالیلة القدر)۔
    اور بلا فاصلہ کہتا ہے :” شب قدر ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے “۔( لیلة القدر خیر من الف شہر )۔
    یہ تعبیر اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ اس رات کی عظمت اس قدر ہے کہ پیغمبر اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک بھی اپنے اس وسیع وعریض علم کے باوجود آیات کے نزول سے پہلے واقف نہیں تھے ۔
    ہم جانتے ہیں کہ ہزار ماہ اسّی (۸۰) سال سے زیادہ ہے ۔ واقعاً کتنی باعظمت رات ہے جو ایک پر برکت طولانی عمر کے برابر قدر و قیمت رکھتی ہے ۔
    بعض تفاسیر میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
    ” بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے لباسِ جنگ زیب تن کررکھا تھا ، اور ہزار ماہ تک اسے نہ اتا را ، وہ ہمیشہ جہاد فی سبیل اللہ میں مشغول ( یا آمادہ ) رہتا تھا ، پیغمبر اکرم کے اصحاب و انصار نے تعجب کیا، اور آرزو کی کہ کاش اس قسم کی فضیلت و افتخار انہیں بھی میسر آئے تو اوپروالی آیات نازل ہوئیں ۔ اور بیان کیاکہ شب قدر ہزار ماہ سے افضل ہے ۔ ۲
    ایک اور حدیث میں آیاہے کہ پیغمبر نے بنی اسرائیل کے چار افراد کو ذکر کیا جنہوں نے اسی سال بغیر معصیت کیے خدا کی عبادت کی تھی۔ اصحاب نے آرزو کی کہ کاش وہ بھی اس قسم کی توفیق حاصل کرتے تو اس سلسلہ میں اوپر والی آیات نازل ہوئیں۔۳
    اس بارے میںکہ یہاں ہزار کا عدد” تعداد“ کے لئے ہے یا” تکثیر“ کے لیے بعض نے کہا ہے : یہ تکثیر کے لیے ہے ، اور شب قدر کی قدر و منزلت کئی ہزار ماہ سے بھی زیادہ ہے ، لیکن وہ روایات جوہم نے اوپرنقل کی ہیں وہ اس بات کی نشان دہی کرتی ہیںکہ عددِ مذکور تعداد ہی کے لئے ہے اور اصولی طور پر بھی عدد ہمیشہ کے لئے ہوتا ہے مگر یہ تکثیر پر کوئی واضح قرینہ موجود ہو ، اوراس کے بعد اس عظیم رات کی مزید تعریف و توصیف کرتے ہوئے اضافہ کرتا ہے : ” اس رات میں فرشتے اور روح اپنے پروردگار کے اذن سے ہر کام کی تقدیر کے لیے نازل ہوتے ہیں“۔ (تنزل الملائکة و الروح فیھا باذن ربھم من کل امر)۔
    اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ” تنزل“ فعل مضارع ہے اور استمرار پر دلالت کرتا ہے ( جو اصل میں ” تتنزل“ تھا)۔ واضح ہو جاتا ہے کہ شبِ قدر پیغمبر اکرم اور نزولِ قرآن کے زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں تھی، بلکہ یہ ایک امر مستمر ہے ، اور ایسی رات ہے جو ہمیشہ آتی رہتی ہے اور ہر سال آتی ہے ۔
    اس بارے میں کہ روح سے کیا مراد ہے بعض نے تو یہ کہا ہے کہ اس سے مراد ” جبرئیل امین “ ہے ، جسے ” روح الامین “ بھی کہا جاتا ہے ، اور بعض نے ” روح“ کی سورہ شوریٰ کی آیہ ۵۲” و کذلک اوحینا الیک روحاً من امرنا“ ” جیسا کہ ہم نے گزشتہ انبیاء پر وحی کی تھی، اسی طرح سے تجھ پر بھی اپنے نافرمان سے وحی کی ہے“۔
    کے قرینہ سے ” وحی“ کے معنی میں تفسیر کی ہے ۔
    اس بناء پر آیت کا مفہو م اس طرح ہوگا” فرشتے وحی الٰہی کے ساتھ، مقدرات کی تعیین کے سلسلہ میں ، اس رات میں نازل ہوتے ہیں “۔ یہاں ایک تیسری تفسیر بھی ہے جو سب سے زیادہ قریب نظر آتی ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ” روح ایک بہت بڑی مخلوق ہے جو فرشتوں سے مافوق ہے ، جیساکہ ایک امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا : کیا روح وہی جبرئیل ہے “ ؟ امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:” جبرئیل من الملائکة، و الروح اعظم من الملائکة ان اللہ عز و جل یقول : تنزل الملائکة و الروح“۔
    ” جبرئیل تو ملائکہ میں سے ہے ، اور روح ملائکہ سے زیادہ عظیم ہے ، کیا خدا وند تعالیٰ یہ نہیں فرماتا : ملائکہ اور روح نازل ہوتے ہیں ، ؟4
    یعنی مقابلہ کے قرینہ سے یہ دونوں آپس میں مختلف ہیں لفظ ” روح“ کے لئے یہاں دوسری تفاسیر بھی ذکر ہوئی ہیں کیونکہ ان کے لیے کوئی دلیل نہیں تھی ، لہٰذا ان سے صرف نظرکی گئی ہے
    ” من کل امر“ سے مراد یہ ہے کہ فرشتے سر نوشتوں کی تقدیر و تعین کے لئے ، او رہر خیر و برکت لانے کے لئے اس رات میں نازل ہوتے ہیں ، اور ان کے نزول کا مقصدان امور کی انجام دہی ہے ۔
    یا یہ مراد ہے کہ ہر امر خیر اور ہر سر نوشت اور تقدیر کو اپنے ساتھ لاتے ہیں ۔ 5
    ”ربھم“ کی تعبیر کو، جس میں ربوبیت اور تدبیر جہاں کے مسئلہ پر بات ہوئی ہے ، ان فرشتوں کے کام کے ساتھ قریبی مناسبت ہے ، کہ وہ امور کی تدبیر و تقدیر کے لیے نازل ہوتے ہیں، اور ان کا کام بھی پروردگارکی ربوبیت کا ایک گوشہ ہے ۔
    اور آخری آیت میں فرماتا ہے :” یہ ایک ایسی رات ہے ، جو طلوع صبح تک سلامتی اور خیر و برکت و رحمت سے پر رہتی ہے “۔
    ( سلام ھی حتی مطلع الفجر)۔
    قرآن بھی اسی میں نازل ہوا، اس کا احیاء اور شب بیداری بھی ہزار ماہ کے برابر ہے ، خدا کی خیرات و برکات بھی اسی شب میں نازل ہوتی ہیں ، اس کی رحمتِ خاص بھی بندوں کے شامل حال ہوتی ہے ، اور فرشتے اور روح بھی اسی رات میں نازل ہوتے ہیں ۔
    اسی بناء پر یہ ایک ایسی رات ہے جو آغاز سے اختتام تک سرا سر سلامتی ہی سلامتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض روایات کے مطابق تو اس رات میں شیطان کو زنجیر میں جکڑ دیا جاتا ہے ۔ لہٰذا اس لحاظ سے بھی یہ ایک ایسی رات ہے جو سالم او رسلامتی سے تواٴم ہے ۔
    اس بناء پر ” سلام “ کا اطلاق ، جو سلامت کے معنی میں ہے ۔( سالم کے اطلاق کے بجائے) حقیقت میں ایک قسم کی تاکید ہے ، جیسا کہ بعض اوقات ہم کہہ دیتے ہیں کہ فلاں آدمی عین عدالت ہے ۔
    بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس رات پر” سلام “کا اطلاق اس بناء پر ہے کہ فرشتے مسلسل ایک دوسرے پریا مومنین پر سلام کرتے ہیں ، یا پیغمبر کے حضور میں اور آپ کے معصوم جانشین کے حضور میں جاکر سلام عرض کرتے ہیں ۔
    ان تفسیروں کے درمیان بھی ممکن ہے ۔
    بہر حال یہ ایک ایسی رات ہے جو ساری کی ساری نور و رحمت ، خیر و بر کت، سلامت و سعادت، اور ہر لحاظ سے بے نظیر ہے ۔
    ایک حدیث میں آیاہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا گیا ۔ کیاآپ جانتے ہیںکہ شب قدر کونسی رات ہے ؟ تو آپ نے فرمایا-
    ” کیف لانعرف و الملائکة تطوف بنا فیھا“
    ” ہم کیسے نہ جانیں گے جب کہ فرشتے اس رات ہمارے گرد طواف کرتے ہیں“۔ 6
    حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں آیا ہے کہ خدا کے کچھ فرشتے آپ کے پاس آئے اور انہیں بیٹے کے تولد کی بشارت دی اور ان پر سلام کیا ، ( ہود۔۶۹)۔ کہتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کی جو لذت ان فرشتوں کے سلام میں آئی، ساری دنیا کی لذتیں بھی اس کے برابرنہیں تھیں۔ اب غور کرنا چاہئیے کہ جب شب قدر میں فرشتے گروہ درگروہ نازل ہورہے ہوں، اور مومنین کو سلام کررہے ہوں ،تو اس میں کتنی لذت، لطف اور برکت ہوگی؟! جب ابراہیم کو آتش نمرودمیں ڈالا گیا ، تو فرشتوں نے آکر آپ کو سلام کیااور آگ ان پر گلزار بن گئی ، تو کیا شب قدر میں مومنین پر فرشتوں کے سلام کی برکت سے آتش دوزخ” برد“و” سلام “ نہیں ہو گی ؟ ۔
    ہاں ! یہ امت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت کی نشانی ہے کہ وہاں تو خلیل پر نازل ہوتے ہیں اور یہاں اسلام کی اس امت پر ۔7
    ۱۔ مفردات راغب مادّہ نزل۔
    ۲۔ ” در المنثور“ جلد ۶ ص ۳۷۱۔
    ۳۔ ” در المنثور“ جلد ۶ ص ۳۷۱۔
    4۔ ” تفسیر بر ہان “ جلد ۴ ص ۴۸۱۔
    5-بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ خدا کے امر و فرمان سے نازل ہوتے ہیں لیکن مناسب وہی پہلا معنی ہے ۔
    6۔ ” تفسیر برہان“ جلد ۴ ص۴۸۸ حدیث ۲۹۔
    7۔ ” تفسیر فخر رازی“ جلد ۳۲ ص ۳۶
    (بحوالہ گوگل سرچ)

  7. محمد احمد ترازی بھائ سلامت رھیں خوش رھیں آپکی ھر قلمی کاوش کا اجر عنداللہ ھے اللہ تعالی اپ کے رزق میں عمر میں علم میں ھر خوشی میں برکت عطا فرماۓ آمین ثم آمین
    اللہ پاک آپکے علم میں برکت دے جزاک اللہ
    اپ کے قلمی جہاد کو اللہ پاک قبول فرماۓ آمیں ثم آمین

  8. اسلام علیکم
    جزاک اللہ خیر یھا ئی احمد تراضی
    اللہ کرے علم و عمل اور زیادہ
    عالم آرا

  9. بہن شاھین رضوی
    اللہ آپ کی کاوشوں کو قبول فرمائے ۔آمین
    اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا کرے ۔ اللہ ہم سب کی عبادتوں کو قبول کر لے اور بہترین صلوں سے فوازے آمین
    مجھے بھی دعاؤں میں یاد رکھئے گا ۔
    عالم آرا

  10. شب قدر ماہ رمضان کے آخری ایام کی راتوں میں سے ایک رات ہے۔
    شب قدر٬ انیسویں یا اکیسویں یا شب تئیسویں ماہ رمضان ہے ۔ اور اس رات کی بہت فضیلت ہے کیونکہ اس رات میں قرآن کریم نازل ہوا ہے۔

    شب قدر میں انسان کی نیکی٬ برائی٬ ولادت٬ موت٬ رزق٬ حج٬ اطاعت٬ گناہ٬ خلاصہ یہ کہ جتنے بھی افعال اور واقعات اس سال میں اس کے اختیار سے انجام پائینگے وہ سب اسکی قسمت میں لکھ دیئے جاتے ہیں۔( کافی٬ ج 4 /ص 157 )

    قدر کی رات ہر سال اور ہمیشہ آتی ہے اس رات میں عبادت کی فضیلت بیشمار ہے اس رات کو عبادت اور توبہ استغفار کی حالت میں گزارنا٬ سال بھر کی اچھی تقدیر لکھے جانے میں موٴثر ہے۔

    اس رات میں٬ آیندہ سال کے تمام امور٬ امام زمانہ کی خدمت میں پیش کیۓ جاتے ہیں اور وہ اپنی و دوسروں کی تقدیر سے با خبر ہوتے ہیں۔

    انہوں نے حدیث بیان کرتے ہوئے کہا : امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:( انہ ینزل فی لیلة القدر الی ولی الامر تفسیر سنةً سنةً یو مر فی امر نفسہ بکذا و کذا و فی امر الناس بکذا و کذا۔)

    شب قدر میں ولی امر ( امام زمانہ) کی خدمت میں سال بھر کے کاموں کی تفصیل پیش ہوتی ہیں وہ اپنے اور دوسرے لوگوں کے امور میں حکم دینے پر ما مور ہوتےہیں۔

    امام باقر علیہ السلام اس آیہ ” انّا انزلناہ فی لیلة مبارکة” کے معنی کے جواب میں فرماتے ہیں۔

    شب قدر وہ رات ہے جو ہر سال ماہ رمضان کی آخری تاریخوں میں اجاگر ہوتی ہے یہ وہ شب ہے جس میں نہ صرف قرآن نازل ہوا ہے بلکہ خدا وند عالم نے اس رات کے لۓ فرمایا ہے

    ۔{ فیھا یفرق کل امر حکیم…} اس قدر کی رات میں ہر وہ حادثہ اور امور جو سال بھر میں ظاہر ہوگا جیسے نیکی برائی اطاعت اور معصیت یا وہ اولاد جسکو پیدا ہونا ہے یا وہ موت جو آئیگی یا وہ رزق جو ملے گا سب کے سب تقدیر میں لکھ دیئے جاتے ہیں۔

    اسی بناء پر قرآن کریم میں شب قدر اور تقدیر الھی کی جانب خاص توجہ پائی جاتی ہے کہ جو خصو صیت جھان اور انسان کے رابطہ کو خدا سے بیان کرتی ہے اگر ہر شخص اس رابطہ پر عقیدہ رکھے اور اسی کے مطابق حرکت کرے تو اسکی سال بھر کی تقدیر لکھے جانے میں زیادہ موٴثر ہوگی۔

    علامہ مجلسی امام محمد تقی(ع) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ہے:(…لقد خلق اللہ تعالی لیلةاقدر اول ما خلق الدنیا ولقد خلق فیھا اول نبی یکون واول وصی یکون…) خداوند نے شب قدر کو اس دنیا کی خلقت کے آغاز میں خلق کیا ہے اور اسی شب میں اس نے اپنے پہلے نبی اور وصی کو قرار دیا ہے.

    دوسری جانب رسول اکرم(ص) کا ارشاد ہے(ان اللہ وھب لامتی لیلة القدر لم یعطھا من کان قبلہم ) خدوند عالم نے میری امّت کو شب قدر کی نعمت سے نوزا ہے جبکہ پہلے والی امّتوں کو یہ نعمت عطا نہیں ہوئ تھی ۔

    ان دونوں روایتوں کو جمع کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شب قدر کا وجود پہلے سے تھا لیکن اسکی فضیلتوں کو خداوند نے امّت اسلام سے مخصوص کر دیا جو پہلے والی امّتوں کو عطا نہیں ہوئ تھیں.

    اس لیۓ شب قدر ایک حقیقی اور واقعی چیز ہے جس کو خداوند نے قرار دیا ہے.

    سورہٴ قدر کی آیتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہر سال میں ایک شب “قدر” کے نام سے ہے.

    جس کی فضیلت ہزار ماہ سے زیادہ ہے اس شب میں اللہ کے فرشتہ بالخصوص روح الامین اللہ کے ہر فرمان اور تقدیر کو جو کہ ایک سال کے لیۓ مقّرر ہوتی ہے لیکر نازل ہوتے ہیں.

    وہ احادیث جو سورہ قدر اور سورہ دخان کی شروع کی آیتوں کے سلسلہ میں وارد ہوئ ہیں ان احادیث سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ شب قدر میں اللہ کے فرشتہ ایک سال کی تقدیر کو امام زمانہ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں یہ واقعیت پہلے تھی اور آیندہ بھی رہے گی.

    پیغمبر اکرم(ص) کی حیات میں اللہ کے فرشتہ تقدیر سال کو رسول اکرم(ص) کی خدمت میں پیش کرتے تھے اس بات کو سبھی نے قبول کیا ہے.

    اس بات میں شک نہیں ہے کہ شب قدر ماہ رمضان کی ایک شب ہے کیونکہ یہ بات قرآن کی آیات سے ثابت ہے خداوند کا ارشاد ہے {شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن}بقرہ185
    دوسری جانب ارشاد فرماتا ہے:{ انّا انزلناہ فی لیلة القدر }

    لیکن یہ کہ رمضان کی کون سی شب ہے اس کے لیۓ روایات سے رجوع کرنا ضروری ہے

    رمضان کے آخری 10 دن یا حد اقل شب ٬19 ٬21 23 میں زیادہ سے زیادہ عبادت کی جاۓ.خود پیغمبر اکرم(ص) دھہ آخری رمضان میں اعتکاف کرتے تھے. بعض بزرگان دین نے شب قدر کو درک کرنے کے لیۓ پورے سال کی راتوں کو جاگ کر عبادت میں گزارا ہے تاکہ وہ یقینی طور سے شب قدر کے ثواب کو حاصل کر سکیں بہر حال شب قدر صرف ایک شب ہے اور زیادہ احتمال یہ ہیکہ ماہ رمضان کی آخری 10 شبوں بالخصوص اکیسویں یا تییسویں شب میں سے کوئ ایک شب ہے.
    موٴمنین اس شب کو درک کرنے کی کوشش کریں اور راتوں کو جاگ کر عبادت میں بسر کریں

    چونکہ شب قدر میں فرشتوں کے نازل ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی بر کتیں بھی نازل ہوتی ہیں جنمیں اھم ترین سال بھر کی تقدیر کا معین ہونا ہے اسکے علاوہ فرشتوں کا جمعی طور سے نازل ہونا نورانیت اور برکت کا باعث ہوتا ہے یہ انسان کے لیۓ توبہ اور دعا کا بہت اچھا موقع ہوتا ہے اس میں انسان اپنے درجات کو خداکی بارگاہ میں بلند کرسکتا ہے اس طرح سے کہ انسان ایک شب کی عبادت سے ایک ہزار ماہ کی عبادتوں کا ثواب واجر حاصل کرسکتا ھے
    اللہ پا ک ھم کو اس متبرک مہینے میں عبادت کرنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین ثم آمین

  11. شب قدر اور قرآن مجید:

    ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’بے شک ہم نے اس (قرآن مجید) کو اتارا ہے شب قدر میں، اور آپ کچھ جانتے ہیں کہ شب قدر کیا ہے، شب قدر بہتر ہے ہزار مہینوں سے، اترتے ہیں فرشتے اور روح (القدس) اس میں اپنے رب کے حکم سے ہر امر (خیر) کے لیے، یہ سراسر امن و شبِّ سلامتی ہے۔ یہ رہتی ہے طلوع فجر تک‘‘

    شب قدر کی عظمت: فرمایا جارہا ہے کہ ہم نے اس قرآن مجید کو اس رات میں اتارا ہے جو قدر و منزلت کے اعتبار سے بے مثل رات ہے۔ یا اس رات میں اتارا جو تقدیر ساز ہے۔ جس کی برکت سے صرف اہل مکہ اور ساکنان حجاز کے مقدر کا ستارہ ہی طلوع نہیں ہوا بلکہ ساری انسانیت کا بخت خفتہ بیدار ہوگیا۔ اس رات میں ایسی کتاب نازل ہوئی جس میں بنی نوع انسانی کو اپنی پہچان اور اپنے خالق کا عرفان عطا فرمایا۔

    شب قدر کب عطا ہوئی: شب قدر عطا ہونے کی مختلف وجوہات علماء و مفسرین کرام نے بیان فرمائی ہیں یہاں اختصار کے پیش نظر دو قول بیان کیے جاتے ہیں۔ مجاہد رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا جس نے ایک ہزار مہینوں تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اس بات سے بہت تعجب ہوا اور انہوں نے اپنے اعمال کو بہت کم خیال کیا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تسلی اور تسکین کے لیے سورۃ القدر نازل فرمائی۔ (بیہقی)
    علی بن عروہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے چار اشخاص (حضرت ایوب، حضرت حزقیل، حضرت یوشع اور حضرت زکریا علیہم السلام) کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اسی 80 سال کی عبادت کی اور ان کی زندگی کا ایک لمحہ بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں نہیں گذرا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ سن کر تعجب ہوا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے آکر عرض کیا ’’یا محمد صلّی اللہ علیہ وسلم آپ کی امت کو ان لوگوں کی اسی 80 سال کی عبادت سے تعجب ہوا! اللہ تعالیٰ نے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم پر بہتر چیز نازل فرمادی اور سورۃ القدر پڑھی اور کہا یہ اس چیز سے افضل جس پر آپ کو اور آپکی امت کو تعجب ہوا تھا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خوش ہوئے۔ (ابن ابی حاتم)
    فضائل و برکات شب قدر: اس شب عظیم الشان قدرت کا ظہور ہوتا ہے کہ ایک رات کی عبادت کا ثواب ایک ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ عطا فرمایا جاتا ہے۔ (علامہ راغب اصفہانی)
    اللہ تعالیٰ اس رات میں زندگی، موت، رزق، بارش اور دیگر سال بھر کے احکام کا قلمدان مدبرات امور یعنی حضرت میکائیل، حضرت عزرائیل، حضرت اسرافیل اور حضرت جبریل علیہم السلام کے سپرد فرما دیتاہے۔ (قرطبی)
    تمام راتوں میں افضل ترین رات رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے میلاد مبارک کی رات ہے، اس کے بعد شب قدر، پھر معراج شریف کی رات، پھر شب عرفہ، پھر شب جمعہ، پھر شب برأت اور پھر شب عید ہے۔ (روح المعانی)
    اللہ تعالیٰ اس رات میں حضرت جبریل امین علیہ السلام کو حکم فرماتا ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ سے ستر ہزار فرشتے لے کر زمین پر جائیں ان کے ساتھ نور کے جھنڈے ہوتے ہیں۔ زمین پر اترکر چار مقامات پر انہیں گاڑدیتے ہیں۔ کعبہ معظمہ پر، روضۂ انور پر، مسجد اقصیٰ پر اور مسجد طور سینا پر پھر جبریل علیہ السلام ان تمام فرشتوں کو حکم فرماتے ہیں کہ زمین میں پھیل جاؤ۔ وہ تمام زمین میں پھیل جاتے ہیں اور جہاں بھی کہیں مسلمان مرد یا عورت موجود ہوتے ہیں فرشتے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن جس گھر میں کتا، خنزیر، شراب، تصویر یا بدکاری سے جنبی ہوتا ہے وہاں نہیں جاتے۔ وہاں پہنچ کر فرشتے تسبیح و تقدیس کرتے ہیں، کلمہ شریف پڑھتے ہیں، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے استغفار کرتے ہیں اور بوقت فجر آسمانوں کی طرف واپس ہوجاتے ہیں جب ان کی ملاقات پہلے آسمان والے فرشتوں سے ہوتی ہے تو وہ ان سے پوچھتے ہیں تم کہاں سے آئے ہو؟ یہ کہتے ہیں ہم دنیا میں تھے کیونکہ آج محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلم کی امت کی شب قدر تھی۔ آسمان والے فرشتے کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آج محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلم کی امت کی حاجات کے سلسلہ میں کیا کیا؟ یہ کہتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے ان میں سے نیک لوگوں کو بخش دیا، اور بدکاروں کے لیے شفاعت قبول فرمالی۔ پھر آسمان دنیا والے فرشتے تسبیح و تقدیس میں شروع ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو امت محمدیہ کی مغفرت فرمائی اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ دوسرے آسمان پر جاتے ہیں تو وہاں پر بھی یہی معاملہ ہوتا ہے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہیٰ، جنت الماویٰ، جنت نعیم، جنت عدن اور جنت الفردوس سے ہوتے ہوئے عرش الٰہی تک پہنچتے ہیں تو عرش بھی امت کی مغفرت پر شکریہ ادا کرتا ہے۔ عرش کرتا ہے ’’یا اللہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ گذشتہ رات تو نے محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلم کی امت کے صالحین کی بخشش فرمائی ہے اور گنہگاروں کے حق میں نیکوکاروں کی شفاعت قبول فرمائی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’اے عرش تم نے سچ کہا محمد مصطفی کی امت کے لیے میرے پاس بڑی عزت و توقیر ہے، اور ایسی نعمتیں ہیں جن کو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا کسی کان نے نہیں سنا اور کسی کے دل میں ان نعمتوں کا کبھی خیال بھی نہیں آیا۔‘‘ (غنیۃ الطالبین)
    عبادت کم، اجر و ثواب زیادہ: جس طرح اکیلے نماز پڑھنے سے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا ثواب زیادہ ہے، گھر میں نماز پڑھنے سے مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب زیادہ ہے، عام مسجدوں میں نماز ادا کرنے سے جامع مسجد میں نماز ادا کرنے کا ثواب زیادہ ہے، باقی مساجد میں نماز ادا کرنے سے بالترتیب مسجد اقصیٰ، مسجد نبوی اور مسجد حرام میں نماز ادا کرنے کا ثواب زیادہ ہے، باقی ایام میں عبادت کرنے سے جمعہ کے دن عبادت کرنے کا ثواب زیادہ ہے، باقی لوگوں کی عبادت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عبادت کا ثواب زیادہ ہے تمام عابدوں سے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کا ثواب بہت ہی زیادہ ہے، یوں ہی باقی راتوں میں عبادت کرنے سے شب قدر میں عبادت کرنے کا اجر و ثواب زیادہ ہے۔
    رحمت خدابہانہ می جوید، بہا نمی جوید
    اللہ تعالیٰ کی رحمت کسی بہانے کی تلاش میں ہوتی ہے، رحمت الٰہی کو قیمت کی تلاش نہیں ہوتی، بس بندہ کسی بہانے رحمٰن و رحیم ذات کے دروازے پر آجائے اور رحمت خدا پاجائے۔
    شب قدر کی عزت و منزلت کے اسباب وجوہات: وہ وجوہات جو قرآن مجید نے بیان فرمائے ہیں۔
    شب قدر میں قرآن مجید کو نازل کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ’’انا انزلنٰہ فی لیلۃ القدر‘‘ اور قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ’’المستجمع لجمیع صفات الکمالیۃ‘‘ کی مالک ہے سب سے افضل، سب اعلیٰ، خالق و مالک، ہر عیب و نقص سے بلکل ہی پاک، لہٰذا اس کے کلام (قرآن مجید) کو بھی باقی تمام کلام پر کمال و برتری حاصل ہے۔ وہ جس رات میں نازل ہوا وہ رات اس کی نسبت سے بڑی قدر و منزلت پاگئی۔
    ملائکہ اور روح القدس کا اس رات میں زمین پر نزول ہوتا ہے چنانچہ ارشاد ہوا ’’تنزل الملٰئکۃ والروح‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’شب قدر میں حضرت جبریل علیہ السلام فرشتوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ زمین پر اترتا ہے اور ملائکہ کا یہ گروہ ہر اس بندے کے لیے دعائے مغفرت اور التجائے رحمت کرتا ہے جو کھڑے ہوئے یا بیٹھے ہوئے اللہ عزوجل کے ذکر میں مشغول ہوتا ہے۔ (درمثنوی)
    ایک روایت میں ہے کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام ہر مؤمن (عابد شب قدر) سے مصافحہ کرتے ہیں۔ اس کی علامت یہ ہے کہ اس وقت مؤمن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس کا دل نرم تر ہوجاتا ہے، اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم)
    یہ رات طلوع فجر تک امن و سلامتی کی رات ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ’’سلام ھی حتیٰ مطلع الفجر‘‘ اس رات میں نفس و شیطان کی وسوسہ اندازیاں عابدوں کو پریشان نہیں کرتے

    ’’شب قدر کی یہ تعظیم و توقیر اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک بڑی قدر و منزلت والی کتاب، بڑی قدر و منزلت والے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم پر اور بڑی قدر و منزلت والی امت کے لیے نازل فرمائی۔‘‘
    اکثر مفسرین کرام فرماتے ہیں ’’اس ایک رات میں جو عمل کیا جاتا ہے وہ ایک ہزار مہینوں کے عمل سے بہتر ہے جن میں لیلۃ القدر نہ ہو۔‘‘ (ض
    انسان کی اصلاح اور فلاح کے لیے جو کام (نزول قرآن) اس ایک رات میں ہوا یہ ہزار مہینوں کی کوششوں سے بہتر اور افضل ہے۔ (ضیاء القرآن)
    شب قدر کس مہینے اور کس تاریخ کو آتی ہے؟
    سورۃ القدر میں بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید کو شب قدر میں نازل کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’انا انزلنٰہ فی لیلۃ القدر‘‘ بے شک ہم نے قرآن مجید کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ (سورۃ القدر)
    اور سورۃ البقرہ میں بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید کو ماہ رمضان المبارک میں نازل کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن‘‘ ماہ رمضان وہ (متبرک مہینہ ہے) جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا۔ (سورۃ البقر آیت 185)
    اس سے ثابت ہوا کہ شب قدر ماہ رمضان المبارک ہی کی کوئی رات ہے البتہ تاریخ کے تعین کے بارے میں علماء امت کا بڑا اختلاف پایا جاتا ہے چنانچہ علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے شرح صحیح مسلم جلد سوم صفحہ نمبر 210,209 میں علامہ ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے چھیالیس 46 اقوال کا تفصیلی ذکر فرمایا ہے لیکن جمہور علماء کرام اور کثیر تعداد امت اسلام کا قول و عمل ماہ رمضان المبارک کی ستائیسویں 27 رات میں شب قدر کا ہے۔
    شب قدر کو متعین نہ کرنیکی حکمتیں:
    شب قدر کو متعین نہ کرنے کی علماء مفسرین نے کئی حکمتیں بیان فرمائی ہیں مگر یہاں بخوف طوالت حضرت پیر محمد کرم شاہ ازہری رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر پر اکتفا کی جاتی ہے جو نہایت مختصر مگر جامع اور اقوال مفسرین کا خلاصہ ہے۔ پیر صاحب فرماتے ہیں ’’اس (شب قدر) کو متعین نہ فرمانے میں بھی کئی حکمتیں ہیں تاکہ مسلمان اس رات کو تلاش میں زیادہ نہیں تو کم ازکم پانچ طاق راتیں اللہ تعالیٰ کے ذکر اور عبادت میں گذاریں۔ اگر رات متعین کردی جاتی تو لوگ صرف اسی رات کو ہی جاگتے اور عبادت کرتے۔ نیز اس رات کو اگر مقرر کردیا جاتا تو اسے ذکر و عبادت میں گذارنے والے تو اجر عظیم کے مستحق قرار پاتے لیکن اسے گناہوں میں صرف کرنے والے بھی سنگین سزا میں مبتلا کیے جاتے کیونکہ انہوں نے شب قدر کو پہچانتے ہوئے اسے خدا کی نافرمانی میں ضایع کیا۔ اس لیے رحمت کا تقاضا یہی ہے کہ اسے ستور رکھا جائے۔ تاکہ اگر کوئی بدنصیب بے صبری میں اس رات کو گناہوں کی بھینٹ چڑھاتا ہے تو اسے گناہ ایک عام رات کا ملے اور جاگنے والے زیادہ راتیں جاگتے رہیں۔
    شب قدر اور اہل عشق: اہل دل، اہل ذکر، اہل محبت، و اہل عشق۔ عشاق و صوفیاء کے لیے جو رات اپنے مالک حقیقی کی یاد و عبادت میں بسر ہو وہی شب قدر ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں عارف ربانی حضرت عمر بن فارض قدس سرہ کا یہ شعر تمام عشاقان و محبین خدا، صوفیائے کرام کے ہاں نہایت مشہور ہے
    وکل اللیالی لیلۃ القدر ان دنت کما کل ایام اللقاء یوم جمعۃٖ
    یعنی اگر محبوب کا قرب نصیب ہوجائے تو ساری راتیں لیلۃ القدر ہیں جس طرح اس کی ملاقات کا ہر دن جمعہ کا مبارک دن ہے۔
    شب قدر اور بندگی: رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ‘‘ یعنی جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی خاطر قیام کرتا ہے اس کے پچھلے سارے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔
    ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ نبوی صلّی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا ’’یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم لیلۃ القدر نصیب ہوجائے تو کیا دعا مانگوں؟‘‘ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا یہ دعا مانگو ’’اَللّٰہُمَ اِنَّکَ عَفُوٌ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی‘‘ یعنی تو بہت درگذر کرنے والا ہے، تو درگذر کو بہت پسند فرماتا ہے، میرے گناہوں سے بھی درگذر فرمادے۔
    علمائے کرام نے فرمایا ’’اس شب میں نوافل کی نماز زیادہ سے زیادہ اد ا کی جائے، اپنے گناہوں پر نادم ہوکر توبہ و استغفار کی کثرت کی جائے۔ پوری توجہ و یکسوئی کے ساتھ گڑگڑا کر دعائیں مانگی جائیں۔ ذکر و اذکار، تسبیحات و تہلیلات، تکبیرات و تمجیدات اور درود سلام اپنے نبی محتشم صلّی اللہ علیہ وسلم پر پڑھتے ہوئے اس شب کو بسر کیا جائے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ میں یقین کامل رکھا جائے کہ آج رات پروردگار عالم نے اپنی بے پایاں عنایات و عطایا سے میرے تمام گناہوں کو بخش دیا۔ اب میں آئندہ کوئی خطا، کوئی جرم، کوئی کوتاہی رب و رسول کے احکامات و ارشادات میں ہرگز نہیں کروں گیا۔ یا اللہ تو معاف فرما درگذر فرما اور یہ سعی حقیر قبول فرما آمین۔
    گوگل سرچ سے استفادہ کیا

  12. دعا مانگیے کہ اللہ تعالی کو اپنے بندوں کا یہ عمل بہت اچھا لگتا ھے
    یہ چھوٹی چھوٹی سی دعایئں ھیں خود بھی انکو اپنی نماز میں شامل کیجیے اور اپنے رب کی رضا اور خوشنودی کی دعا کریں

    ربنا آتنا فى الدنيا حسنة و فى الآخرة حسنة و قنا عذاب النار ۔

    پروردگار ہميں دنيا ميں بھى نيکى عطا فرما اور آخرت ميں بھي،اور ہميں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔

    بقرہ۔۲۰۱

    ربنا افرغ علينا صبراً وثبت اقدامنا وانصرنا على القوم الکافرين۔

    پالنے والے ہميں بے پناہ صبر عطا فرماہمارے قدموں کو ثبات دے اور ہميں کافروں کے مقابلہ ميں نصرت عطا فرما۔

    بقرہ۔۲۵۰

    ربنا لا تواخذنا ان نسينا او اٴخطاٴنا۔

    پالنے والے ہم جو بھول جائیں يا ہم سے غلطى ہو جائے اس کا مواخذہ نہ کرنا ۔(یعنى اسکے بارے ميں جواب طلب نہ کرنا]۔

    بقرہ۔۲۸۶

    ربنا ولا تحمل علينا اصراًکما حملتہ على الذين من قبلنا۔

    پالنے والے ہمارے اوپر ويسا بوجھ نہ ڈالنا جیسا پچھلى امتوں پر ڈالا گيا ۔

    بقرہ۔۲۸۶

    ربنا ولا تحملنا مالا طاقة لنابہ واعف عنا واغفرلنا وارحمنآ انت مولانا فانصرناعلى القوم الکافرين۔

    پالنے والے ہم پر وہ بار نہ ڈالنا جس کى ہم ميں طاقت نہ ہو ،ہميں معاف کردينا،ہميں بخش دينا،تو ہمارا مولا اور مالک ہے ،اب کافروں کے مقابلہ ميں ہمارى مدد فرما ۔

    بقرہ۔۲۸۶

    ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ہديتنا وھب لنا من لدنک رحمة انک انت الوھاب۔

    پالنے والے ہدایت کے بعد ہمارے دلوں کو نہ پھیرنا، ہميں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما،تو توبہترين عطا کرنے والا ہے۔

    آل عمران۔۸

    ربنا اننا آمنا فاغفرلنا ذنوبنا وقنا عذاب النار۔

    پالنے والے ہم ايمان لے آئے ہيں ہمارے گناہوں کو معاف کر دے اور ہميں جہنم سے بچا لے۔

    آل عمران ۔۱۶

    ربنا اغفر لنا ذنوبنا و اسرافنا فى امرنا وثبت اقدامنا و انصرنا على القوم الکافرين۔

    پالنے والے ہمارے گناہوں کو معاف کر دے ہمارے کاموں ميں زيادتیوں کو معاف فرما، ہمارے قدموں ميں ثبات عطا فرمااور کافروں کے مقابلہ ميں ہمارى مدد فرما۔

    آل عمران ۔۱۴۷

    ربنا فاغفر لنا ذنوبنا وکفر عنا سيئاتنا و توفنا مع الابرار۔

    پالنے والے ہمارے گناہوں کو معاف فرما، ہم سے ہمارى برائيوں کو دور کردے اور ہميں نيک بندوں کے ساتھ محشور فرما۔

  13. ربنا آمنا فاکتبنا مع الشاہدين ۔

    پالنے والے ہم ايمان لے آئے ہيں لہذا ہمارا نام بھى تصدیق کرنے والوں ميں لکھ لے۔

    مائدہ۔۸۳

    ربنا لاتجعلنا مع القوم الظالمين۔

    پالنے والے ہميں ظالموں کے ساتھ قرار نہ دينا۔

    اعراف۔۴۷

    ربنا افرغ علينا صبراً و توفنا مسلمين

    پالنے والے ہميں بہت زيادہ صبر عطا فرما اور ہميں مسلمان دنيا سے اٹھا۔

    اعراف۔۱۲۶

    ربنا و تقبل دعاء۔

    پالنے والے ميرى دعا کو قبول فرما۔

    ابراہيم۔۴۰

    ربنا اغفرلى ولوالدى وللمومنيں يوم يقوم الحساب۔

    پالنے والے مجھے،ميرے والدين کو اور تمام مومنين کو اس دن بخش دينا جس دن حساب قائم ہوگا۔

    ابراہيم ۔۴۱

    ربنا آتنا من لدنک رحمة و ہييٴ لنا من امرنا رشداً۔

    پالنے والے ہميں اپنى رحمت عطا فرما اور ہمارے کام ميں کاميابى کا سامان فراہم کردے۔

    الہی آمین ثم آمین

  14. رمضان المبارک کے آخری عشرے کی فضلیت اس لحاظ سے بھی بہت بلند تر ھے کہ عشرہ آخیرہ کی طاق راتوں میں نیک اور عبادت گذار بندے شب قدر کی خاص عبادتیں کرتے ھیں ،اور شب قدر انتہائ اھم راتیں ھیں ان ایام مبارکہ میں یعنی
    شب قدر میں ایک سال تک کی انسانوں کے مقدرات معین کئے جاتے ہیں ، روزی ، حیات و….. اس مبارک شب میں طے کی جاتی ہیں .

    اپورے سال کےبندوں کے مقدرات معین کئے جاتے ہیں.

    خداوندمتعال نے سوره دُخان کی آیت 3 و 4 میں فرمایا:
    إِنَا اَنْزَلْناهُ فِی لَیْلَةٍ مُبارِکَةٍ اِنَا کُنَا مُنْذِرینَ فِیها یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکیمٍ
    میں اس کتاب مبین کو با برکت رات میں نازل کیااور ھم ھمیشہ انذار کرنے والے ہیں ، وہ رات جس میں تمام امور اسکی حکمت کے تحت معین کیا جاتاہے .

    شب قدر میں ایک سال تک کی انسانوں کے مقدرات معین کئے جاتے ہیں ، روزی ، حیات و….. اس مبارک شب میں طے کی جاتی ہیں .

    لَیْلَةَُ الْقَدْرِ یُقَّدِرُ اللهُ عَزَّوَجَلَّ فِیها ما یَکُونُ مِنَ السَّنَةِ اِلَی السَّنَةِ مِنْ حَیاةٍ اَوْ مَوْتٍ اَوْ خَیْرٍ اَوْ شَرٍ اَوْ رِزْقٍ فَمَا قَدَّرَهُ فِی تِلْکَ الْلَیْلَةِ فَهُوَ مِنَ الْمَحْتُومِ(1)
    شب قدر میں خداوند متعال مقرر کرتا ہے کہ اس سے ائندہ سال تک موت وحیات ، خیر وشراور بندوں کا رزق جو کچھ بھی اس رات طے کیا گیا ہے وہ حتمی ہے.

    2- کون سی رات شب قدر ہے؟
    ابتداء میں ضروری ہے کہ کہا جائے، اس میں شک نہی کہ شب قدر ماہ مبارک رمضان میں ہے چونکہ خداوند ارشاد فرماتا ہے:
    شَهْرُ رَمَضانَ اَلَّذِی اُنْزِلَ فِیهِ الْقُرْآنُ هُدًی لِلْنّاسِ وَ بَیِناتِ مِنَ الْهُدی وَ الْفُرْقانِ(2)

    ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قران جو لوگوں کا رھنما، ھادی اورحق وباطل کو جدا کرنے والا ہے نازل کیا گیا.

    اور سوره قدرمیں فرمایا:
    إِنا اَنْزَلْناهُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْر(3)
    ھم نے قران کو شب قدر میں نازل کیا .
    ان دو ایتوں کو اکٹھا کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہےکہ ، شب قدر ماہ رمضان میں ہے ، مگر ماہ رمضان کی کون سی شب ، شب قدر ہے محل گفتگو اور بحث ہےاور اس سلسلے میں بہت سارے نظریات اور تفسیریں بیان کی گئی ہیں جیسے:

    1 ماہ مبارک کی پہلی شب ، شب قدر ہے
    2- سترھویںشب شب قدر یے
    3- انیسویں شب ، شب قدر ہے
    4- ایکسویں شب ، شب قدر ہے
    5- تیسویں شب، شب قدر ہے
    6- ستایس ویں شب ، شب قدر ہے
    7- انتیسویں شب ، شب قدر ہے
    مگرروایات میں مشھور اور معروف یہ ہے کہ شب قدر ماه رمضان کے اخری دس دن میں سے ایک اور شب 21 یا 23ہے.

    امام صادق (ع) سے شب قدرکے سلسلے میں سوال کیا، توا پ نےفرمایا :

    فَقالَ : اِلْتَمِسْها لَیْلَةَ إَحْدی وَ عِشْرینَ اَوْ لَیْلَةَ ثَلاثٍ وَ عِشْرِینَ(4)
    شب قدر کو انہیں شب 21 و 23کے درمیان تلاش کرو.
    2- علی بن ابی حمزه کہتے ہیں:
    ھم محضر امام صادق (ع) میں تھے.
    فَقالَ لَهُ:
    اَبُو بَصیرٍ جُعِلْتُ فِداکَ اَلْلَیْلَةُ الَّتِی یُرْجی فِیها ما یُرْجی

    ابو بصیر نے اپ کہا : ھم اپ پر قربان ہوں، وہ رات جس میں رحمت و مغفرت اور حسنات کی کثرت کی امید ہے وہ کون رات ہے.
    فَقالَ(ع):
    فِی اِحْدی وَ عِشْرینَ اَوْ ثَلاثٍ وَ عِشْرینَ
    اپ نے فرمایا:
    شب قدر ، شب 21 یا 23 ہے.
    راوی نے اصرار کیا ان دونوں راتوں میں سے کونسی شب ہے اور پوچھا؟
    فَإِنْ لَمْ أَقْوَ عَلَی کِلْتَیْهِمَا ؟
    اگر ھم ھر دوشب میں عباد نہ کرسکیں توکس شب کو عبادت کے لئے منتخب کریں .
    امام صادق (ع) نے جواب میں فرمایا:
    مَا أَیْسَرَ لَیْلَتَیْنِ فِیما تَطْلُبُ (5)
    کیا اسان ہیں دوراتیں ان چیزوں کے جیسے تم چاہتے چاھتے ہو .
    3- کیوں شب قدر مخفی ہے ؟
    بہت سارے لوگ معتقد ہیں :
    پورے سال یا ماہ مبارک رمضان کی شبوں میں شب قدر کے مخفی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اس شب کی اھمیت کو سمجھیں ، جیسا کہ خداوند متعال نے اپنی رضایت کو اطاعت کی مختلف صورتوں میں پنہان کررکھا ہے ، تاکہ لوگ ھر طرح سے خداکہ مطیع رہیں ، اس نے اپنے غضب کو گناہوں کے بیچ مخفی کیا تاکہ انسان سب سے پرھیز کرے ، اسنے اپنے چاھنے والوں لوگوں کے درمیان مخفی کیا تاکہ سب کا احترام کیا جائے ، قبولیت کو دعاکے درمیان مخفی کیا تاکہ لوگ تمام دعاکی جانب متوجہ رہیں ، اسم اعظم کو تمام کوناموں کے درمیان مخفی کیا تاکہ سارے ناموں کو بڑا سمجھیں ، اسنے موت وقت کو چھپایا تاکہ لوگ ھمیشہ امادہ رہیں اورظاھرا یہ مناسب وجہ ہے .(6)

    4- احیاء شب قدر:
    شب قدر کے سلسلے میں جو باتیں احادیث اهل بیت(ع) میں ذکر کی گئی ہیں ان میں سے شب زنده داری ہے اور شب زنده داری کو خاص اھمیت دی گئی ہے.
    نمونہ کے طور پر چند روایات کا ذکر کرہے ہیں :
    .1- احیاء عذاب کو اٹھا لیتا ہے:
    مرحوم کلینی نے کافی و صدوق نے من لایحضره الفقیه میں رسولخدا (ص) نقل کیا ہے کہ اپ نے فرمایا :
    مَنْ اَحْیا لَیْلَةَ الْقَدْرِ حُوِّلَ عَنْهُ الْعَذابُ اِلَی السَّنَةِ الْقابِلَةِ (7)
    جو شب قدر میں احیاء کرے گا ائندہ سال تک اس سے عذاب اٹھا لیا جائے گا.
    2- شب احیاء میں سونے سے منع کیا گیا ہے:
    مرحوم علامه مجلسی نے بحار الانوار میں امام محمد باقر(ع) سےاورانہوں نے اپنےپدر بزرگوارسےنقل کیا ہے :
    إِنَّ رَسُولَ اللهِ (ص) نَهی أَنْ یُغْفَلَ عَنْ لَیْلَةِ إِحْدی وَ عِشْرینَ وَ عَنْ لَیْلَةِ ثَلاثٍ وَ عِشْرینَ وَ نَهی أَنْ یَنامَ اَحَدٌ تِلْکَ اللَّیْلَةَ (8)
    پیامبر خدا (ص) نےمنع کیا ہے انسان شب 21 و 23 کی غافل ہو اور منع کیا ہے کہ اس شب میں کوئی سوئے.
    3- امام صادق (ع)نے بیماری کی حالت میں شب 23 کو احیاء کیا :
    مرحوم شیخ طوسی نے یحیی بن علاء سےنقل کیا کہ انہوں نے کہا :
    کانَ اَبُوعَبْدِاللهِ مَریضاً دَنِفاً فَاَمَرَ فَاُخْرِجَ اِلی مَسْجِدِ رَسُولِ اللهِ (ص) فَکانَ فِیهِ حَتّی اَصْبَحَ لَیْلَةَ ثَلاثٍ وَ عِشْرینَ مِنْ شَهْرِ رَمضانَ (9)
    امام صادق (ع) سخت بیمار تھے مگر انہوں نے حکم دیا کہ انہیں مسجد پیامبر خدا (ص) میں لے جایا جائے اور اپ وہاں تھےیہاں تک کہ شب 23 ماه رمضان کی صبح طلوع ہو گئی .
    4- احیاء گناھوں کی بخشش کا سبب ہے.
    مرحوم شیخ صدوق ،امام کاظم (ع) نقل کرتے ہیں کہ اپ نے فرمایا:
    مَنِ اغْتَسَلَ لَیْلَةَ الْقَدْرِ وَ اَحْیاها اِلی طُلُوعِ الْفَجْرِ خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِه (10)
    جو بھی شب قدر غسل کرے اور تا صبح شب زندہ رہے اسکی گناہیں بخش دی جاتیں ہیں

    اللہ تعالی ھم سب کو رمضان المبارک کی ان بڑي فضلتیوں والی راتوں میں ایسی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرماء جو ھم کو ھمارے رب سے قریب تر کردے
    اللہ پاک ھماری قلیل عبادتوں کو قبول فرما‎ ‎ ۓ آمین ثم آمین
    اللہ پاک ھم سب کو نیکی اور سچائ کے خیر و سچائ کے ایسے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرماۓ جس سے ھمارا رب ھم سے راضی ھوجا‎ ۓ

  15. بہن شاہین صاحبہ، اور بھائی احمد ترازی صاحب، ! سلامت رہیں امین
    جزاک الله ، سبحان الله ! کیا خوب تفصیل سے اس مبارک رات کا ذکر کیا ہے – ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں .

  16. عزيز بہن عابدہ مظفر خوش رھیں سلامت رھیں اللہ پاک آپکو ھمشیہ فائزین کی فہرست میں رکھے آمین ثم آمیں

    بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
    إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ﴿۱﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ﴿۲﴾لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ﴿۳﴾ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ ﴿۴﴾ سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ ﴿۵﴾
    ھزار مہینہ تریاسی سال بنتے ہیں یعنی ایک رات کی عبادت تریاسی سالوں کی عبادت سے افضل ہے۔کیونکہ قرآن اس رات میں نازل ہوا ہے۔ قرآن کے نازل ہونے میں خود قرآن بشارت دیتا ہے کہ قرآن ماہ مبارک رمضان میں<>(بقرہ : 185) شب قدر میں نازل <>(قدر:1) ہوا ہے۔

    اور یہ نزول دو طرح کا رہا ہے ایک نزول دفعی یعنی ایک بار نازل ہوا۔ شب قدر میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر ایک ساتھ نازل ہوا ہے اور دوسرا نزول ، نزول تدریجی ہے جو کہ پیغمبر اکرم( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چالیس کی عمر میں بعثت کے دن نازل ہونا شروع ہوا اور آنحضرت کی عمر مبارک کے 63 ویں سال تک نازل ہوتا رہا ہے، جوکہ 23 سال نازل ہوتا رہا ہے۔ یعنی قرآن ایک ساتھ ایک بار شب قدر میں نازل ہوا ہے اور دوسری مرتبہ 23 سال آھستہ آھستہ نازل ہوتا رہا ہے۔

    اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس رات کو پا لیں ایک رات میں عمر بھر کی عبادت کا ثمرہ پا سکیں گے۔ کیونکہ اللہ نے شب قدر کو ھزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے <>(قدر:4) شب قدر کی رات ھزار مہینوں سے افضل ہے۔ ھزار مہینہ یعنی 83 سال۔ یعنی ایک اچھی عمر۔ اس لئے چاہئے کہ اپنے لئے سعادت کی زندگی اللہ سے طلب کریں۔

    جس زندگی میں دنیا بھی آباد ہو آخرت بھی آباد ہو۔ اللہ نے انسان کو اپنی تقدیر بنانے یا بگاڑنے کا اختیار خود انسان کے ہاتھ دیا ہے وہ سعادت کی زندگی حاصل کرنا چاہے گا اسے مل جائے گی وہ شقاوت کی زندگی چاہے گا اسے حاصل ہو جائے گی۔ <> (یونس:23) لوگو! اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ تمہاری سرکشی صرف تمہیں نقصان پہچائے گی۔ جو کوئی سعادت کا طلبگار ہے وہ شب قدر میں صدق دل کے ساتھ اللہ کی بار گاہ میں توبہ کرے، برائیوں اور برے اعمال سے بیزاری کا عہد کرے گا۔

    اللہ سے اپنے خطاؤں کے بارے میں دعا اور راز و نیاز کےذریعہ معافی مانگے گا یقینا اس کی تقدیر بدل جائے گی

    جو کوئی عمر بھر شب قدر میں سال بھر کے لئے سعادت اور خوشبختی کی تقدیر طلب کرنے میں کامیاب ہوا ہوگا وہ اسکی حفاظت اور اس میں اپنے لئے بلند درجات حاصل کرنے میں قدم بڑھائے گا اور جس نے شقاوت اور بد بختی کی تقدیر کو اختیار کیا ہوا وہ توبہ نہ کرکے بدبختی کی زندگی میں اضافہ کرے

    اللہ پاک ھماری قلیل عبادتوں کو قبول فرماۓ ھمارا رب ھم سے راضی رھے آمین ثم آمین

  17. ستائیسویں رمضان المبارک کے دن کی دعا

    بسم اللہ الرحمن الرحيم
    شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے

    اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِی فِیہِ فَضْلَ لَیْلَہِ الْقَدْرِ وَصَیِّرْ امُورِی فِیہِ مِنَ الْعُسْرِ الَی الْیُسْرِ وَاقْبَلْ مَعاذِیرِی، وَحُطَّ عَنِّی الذَّنْبَ وَالْوِزْرَ، یَا رَؤُوفاً بِعِبادِہِ الصَّالِحِینَ

    اے معبود!
    آج کے دن مجھے شب قدر کا فضل نصیب فرمادے اس میں میرے معاملوں کو مشکل سے آسان بنا دے اور میرا عذر و معذرت قبول کر لے اور میرا گناہ معاف اور بوجھ دور کردے اے اپنے نیکوکاربندوں کے ساتھ مہربانی کرنے والے ۔الہی آمین

    چوتھی شب قدر ۔۔ستاسویں شب قدر کی عبادات

    1اس شب قدر کو بارہ رکعت نماز تین سلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ قدر ایک مرتبہ اس کے بعد سورہ اخلاص پندرہ مرتبہ پڑھے پھر سلام کے بعد ستر مرتبہ استغفار پڑھے ۔

    2 اللہ پاک اس نماز کو پڑھنے والے کو نبیوں کی عبادت کا ثواب عطا فرمائے گا ۔انشا اللہ العظیم

    3 اس بڑی برکتوں والی رات میں دو رکعت نماز پڑھے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ قدر تین تین دفعہ اس کے بعد سورہ اخلاص پانچ مرتبہ پڑھے ،سلام کے بعد ستائیس مرتبہ پڑھے کر گناہوں کی مغفرت کی دعا کرے ۔اللہ تعالیٰ اس کے تمام پچھلے گناہوں کومعاف فرما دے گا (آمین )

    4 اس رات کو چار رکعت نماز دو سلام سے پڑھنی ہے ، ہر رکعت میں بعد سورہ فاتحہ کے سورہ تکاثرایک ایک بار اس کے بعد سورہ اخلاص تین تین مرتبہ پڑھنی ہے ۔اس نماز کو پڑھنے الے پر اللہ پاک کی موت کی سختی آسان ہوجاے گی ۔انشا اللہ تعالی اس پر عذاب قبر بھی معاف ہوجاے گا۔

    5 اس شب قدر کو ساتوں حم پڑھے یہ ساتوں حم عذاب قبر سے نجات اور مغفرت گناہ کے لے بوہت افضل ہیں ۔

    6 ستاسویں شب قدر کو سورہ ملک ساتھ مرتبہ پڑھنے ہے واسطمغفرت بہت فضیلت والی ہے ۔

  18. تیرہ صدیوں سے صحیفہ سجادیہ زاہدین و صالحین کا مونس و انیس اور مشاہیر علماء و مصنفین کا مرجع و ملجا رہا ہے۔جس کی سند امام زین العابدین علیہ السلام تک جاپہنچتی ہے، علماء اور اصحاب امامیہ کے نزدیک متواترات [اور قطعیات] میں سے ہے؛ کیوں کہ اس کہ خصوصیت یہ ہے [كہ تمام اصحاب و علماء نے اپنے استادوں سے] تمام رجالی طبقات اور تمام ادوار و اعصار میں اس کی نقل و روایت کی اجازت دیتے ہو‏ئے حاصل کرکے اسے نقل کیا ہے ۔

    صحیفہ کی شہرت کا درجہ اس قدر اونچا ہے کہ (علامہ محمد باقر مجلسی صاحب بحار الانوار کے والد ماجد) مرحوم علامہ محمد تقی مجلسی نے دعوی کیا ہے کہ ان کے پاس صحیفہ کی نقل و روایت کے حوالے سے 10 لاکھ اسناد و ثبوت موجود ہیں۔

    علماء اہل سنت نے بھی صحیفہ سجادیہ کی روایت کی ہے۔ مثال کے طور پر ابن جوزی نے خصائص الائمۃ میں اور حافط سلیمان بن ابراہیم القندوزی (متوفی 1294) نے ‏ینابیع المودت میں صحیفہ سجادیہ کا ذکر کیا ہے اور اس کی بعض دعائیں نقل کی ہیں۔

    آج ایک بار پھر اللہ کریم و رحیم نے اپنے حبیب پاک اور ان کی آل مطہر کے صدقہ مجھے صحیفہ سجادیہ کی ایک دعا “ توبہ“ سے ماخوز آزاد نظم قلمبند کرنے کی سعادت عطا فرمائی ہے ۔۔۔ آپ سب کی نظر ہے ۔ آپ سب سے دعاؤں کی قبولیت کے لئے آمین کی التجا ہے ۔۔

    جزاک اللہ

    ” میرے معبود اپنی مغفرت میرے شامل حال کر دے “ دعا آزاد نظم کی صورت ”

    اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    اے میرے معبود !

    اے میرے مالک !

    اے وہ جس کی توصیف سے وصف کرنے والوں کے توصیفی الفاظ قاصر ہیں

    اے وہ جو امیدواروں کی امیدوں کا مرکز ہے

    اے وہ جس کے ہاں نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں ہوتا

    اے وہ جو عبادت گزاروں کے خوف کی منزل منتہا ہے

    اے وہ جو پرہیزگاروں کے بیم و ہراس کی حدٍ آخر ہے

    اے میرے معبود

    یہ اس شخص کا موقف ہے جو گناہوں کے ہاتھوں میں کھیلتا ہے

    جسے خطا‎ؤں کی باگوں نے کھینچ لیا ہے اور جس پر شیطان غالب آ گیا ہے

    جو تیرے حکم سے لاپرواہ ہو رہا ہے

    ادائے فرض میں کوتاہی کر رہا ہے

    فریب خوردگی کی وجہ سے تیرے منہیات کا مرتکب ہو رہا ہے

    ایسے جیسے

    خود کو تیرے قبضہ قدرت میں وہ سمجھتا ہی نہیں

    مسلسل ہوئے جوفضل و احسان وہ مانتا ہی نہیں

    مگر

    اب اس پر تیرا ایک اور فضل ہوا

    اس گنہگار کی چشم بصیرت وا ہوئی

    کوری و بے بصری کے بادل چھٹ گئے

    تو اس نے

    اس نے اپنے نفس پر کۓ ہوئے اپنے ہی ظلموں کا جائزہ لیا

    اپنے پروردگار کی موارد پر اپنی مخالفتوں کا ادراک کیا

    اپنے بڑے گناہوں کو واقعی بڑا اور اپنی مخالفتوں کو حقیقتا عظیم پایا

    اے میرے معبود!

    وہ شرمسار اس حالت میں بھی تجھ سےامیدوار ہے

    تیری جانب متوجہ ہے کہ تجھ پر اسے اعتبار ہے

    یقین و اطمینان کے ساتھ تیری طرف راغب ہے

    اپنی خواہش و آرزو لئے تیری اقدس میں قصد ہے

    دل میں تیرا بیشک خوف پر خلوص بے انتہاہے

    وہ شرمسار تیری بارگاہ میں اس حالت میں ہے

    جیسے

    تیرے سوا اسے کسی سے غرض نہ تھی اور نہ ہے

    تیرے سوا اسے کسی کا خوف نہ تھا اور نہ ہے

    وہ عاجزانہ تیرے اقدس مبارک میں حاضر ہے

    فروتنی سے اپنی آنکھیں زمین میں گاڑ لیں ہیں

    تذلّل و انکسار سے تیری عظمت کے آگے سر جھکا لیا ہے

    اے میرے معبود !

    جنہیں تو سب سے بہتر جانتا ہے وہ سارے اپنے راز

    ہاۓ درون پردہ عجزونیاز مندی سے تیرے آگے کھول دیۓ ہیں

    اے میرے معبود!

    جن کا تو اس سے زیادہ حساب رکھتا ہے وہ سارے اپنے گناہ

    عاجزی سے ایک ایک کرکے بڑی تفصیل سےشمار کۓ ہیں

    پر

    ان بڑے گناہوں سے جو تیرے علم میں ہیں

    وہ بڑے مہلک اور ان بد اعمالیوں سے ہیں

    جو تیرے فیصلہ کے مطابق رسوا کن ہیں

    ایک گنہگار تیری بارگاہ اقدس میں دادو فریاد کرتا ہے

    ہائے ۔۔صد حیف ۔۔ وہ گناہ کہ جن کی لذت جاتی رہی ہے

    اور ان کا وبال ہمیشہ کے لۓ باقی رہ گیا ہے

    اے میرے معبود !

    اگر تو اس پرعذاب کرے تو وہ تیرے عدل کا منکر نہیں ہوگا

    اور اگر تو اس سے درگزر کرے ۔۔۔۔اور ۔۔۔۔ ترس کھائے

    تو وہ تیرے عفو کو کوئي عیب اور بڑی بات نہیں سمجھے گا

    اس لۓ کہ

    تو وہ پروردگار کریم ہے

    جس کے نزدیک بڑے سے بڑے گناہ کو بھی بخش دینا کوئی بڑی بات نہیں

    اے میرے معبود !

    میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں

    تیرے حکم دعا کی اطاعت کرتے ہوئے اور تیرے وعدہ کا ایفا چاہتے ہوئے

    کہ ” مجھ سے دعا مانگو تو میں تمہاری دعا قبول کروں گا ” حاضر ہوں

    اے میرے خدا!

    محمد اور ان کی آل پر بےشمار رحمت نازل فرما

    ان کے صدقے اپنی مغفرت میرے شامل حال کر دے

    جس طرح میں اقرار گناہ میں تیری طرف متوجہ ہوئی ہوں

    گناہوں سے مغلوب اس بندی کو سہارا دے کر اوپر اٹھادے

    جس طرح میں نے اپنے نفس کو تیرے آگے خاک مذلّت پر ڈال دیا ہے

    اے میرے معبود !

    اپنے دامن رحمت سے میری پردہ پوشی فرما دے

    جس طرح مجھ سے انتقام لینے میں توں نے صبر و حلم سے کام لیا ہے

    اے اللہ !

    اپنی اسی بردباری کے صدقے

    اپنی اطاعت میں میری نیت کو استوار کر دے

    اور عبادت میں میری بصیرت کو قوی کر دے

    جو اعمال میرے گناہوں کے میل کو دھو ڈالیں

    مجھے ان اعمال کے بجا لانے کی توفیق عطا کر دے

    اے میرے معبود !

    مجھے دنیا سے جب اٹھائے اپنے نبی محمد (ص) کے آئین پر اٹھانا

    میں اپنے چھوٹے بڑے گناہوں پوشیدہ و آشکارا معصیتوں

    گزشتہ و موجودہ لغزشوں سے توبہ کرتی ہوں

    اس شخص کی طرح توبہ کرتی ہوں

    جو دل میں معصیت کا نہ خیال کرے اور نہ گناہ کی طرف پلٹنے کا تصوّر کرے

    اے میرے خدا!

    توں نے اپنی محکم کتاب میں فرمایا ہے کہ تو بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے

    گناہوں کو معاف کرتا ہے اور توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے

    سو آج میری میری توبہ قبول فرما جیسا کہ تو نے وعدہ کیا ہے

    اور میرے گناہوں کو معاف کر دے جیسا کہ تو نے ذمہ لیا ہے

    حسب قرارداد اپنی محبت کو میرے لۓ ضروری قرار دے

    اے میرے پروردگار !

    میں تجھ سے یہ اقرار کرتی ہوں تیری ناپسندیدہ باتوں کی طرف رخ نہیں کروں گی

    میں تجھ سے قول و قرار کرتی ہوں قابل مذمت چیزوں کی طرف رجوع نہ کروں گی

    میں تجھ سے یہ عہد کرتی ہوں کہ تیری تمام نافرمانیوں کو یکسر چھوڑ دوں گی

    میرے خدا!

    تو میرے عمل و کردار سے خوب آگاہ ہے

    جو بھی تو میری بابت جانتا ہے بس مجھے بخش دے

    اپنی قدرت کاملہ سے پسندیدہ چیزوں کی طرف مجھے موڑ دے

    اے اللہ !

    میرے ذمہ کتنے ایسے حقوق ہیں جو مجھے یاد ہیں

    اور کتنے ایسے ہیں جن پر نسیان کا پردہ پڑا ہوا ہے

    لیکن

    وہ سب کے سب تیری آنکھوں کے سامنے ہیں

    ایسی آنکھیں جو خواب آلودہ نہیں ہوتیں

    تیرے علم میں ہیں ایسا علم جس میں فروگذاشت نہیں ہوتی

    اے میرے معبود !

    جن لوگوں کا مجھ پر کوئی حق ہے

    اس کا اس کا بوجھ مجھ سے برطرف اور اس کا بار ہلکا کر دے

    اور مجھے پھر ویسے گناہوں کے ارتکاب سے محفوظ رکھنا

    اے اللہ !

    میں توبہ پر قائم نہیں رہ سکتی سو تمام عمر تیری ہی نگرانی مانگتی ہوں

    میں گناہوں سے باز نہیں آ سکتی سو تیری ہی قوت و توانائی مانگتی ہوں

    میرے معبود !

    مجھے بے نیاز کرنے والی قوت سے تقویت دے

    گناہوں سے روکنے والی نگرانی کا میرا ذمہ لے

    اے اللہ !

    میں تجھ سے پناہ مانگتی ہوں کہ میں اس جیسی نہ ہوں

    جو توبہ شکنی کرنےوالے اور گناہ ومعصیت کی طرف دوبارہ پلٹنے والے ہوں

    اے اللہ

    میری توبہ کو ایسی توبہ قرار دے کہ اس کے بعد پھر توبہ کی احتیاج نہ رہے

    جس سے گزشتہ گناہ محو ہو جائیں اور زندگی کے باقی دنوں میں سلامتی کا سامان ہو جائے

    اے اللہ !

    میں اپنی جہالتوں سے عذر خواہ اور اپنی بد اعمالیوں سے بخشش کی طلب گار ہوں

    اپنے لطف و احسان سے مجھے پناہ گاہ رحمت میں جگہ دے

    اوراپنے تفضل سے اپنی عافیت کے پردہ میں چھپا لے

    اے اللہ !

    میں توبہ کرتی ہوں ہر اس خلاف ورزی کی

    جودل میں گزرنے والے خیالات میں تھی

    آنکھ کے اشاروں اور زبان کی گفتگو میں تھی

    جو تیرے ارادہ و رضا کے سرا سر خلاف تھی

    تیری محبت و رحمت کی حدود سے باہر تھی

    اے میرے معبود !

    میں تیری بارگاہ میں ایسی توبہ کی امیدوار ہوں

    جس سے میرا ہر ہر عضو اپنی جگہ پر تیری عقوبتوں سے بچا رہے

    ان تکلیف دہ عذابوں سے جن سے سرکش خائف رہتے ہیں محفوظ رہے

    اے معبود !

    میں عالم تنہائی میں تیرے سامنے ہوں

    خوف سے میرے دل کی دھڑکن تیز تر ہے

    ہیبت سے میرے اعضاء میں تھرتھری ہے

    اے پروردگار!

    میری حالت پر رحم فرما

    مجھے گناہوں نے تیری بارگاہ میں رسوائی کی منزل پر لا کھڑا کیا ہے

    اب اگر چپ رہوں تو میری طرف سے کوئی بولنے والا نہیں ہے

    اور اگر کوئی وسیلہ لاؤں تو شفاعت کے لائق بھی نہیں ہوں

    اے میرے اللہ !

    محمد اور ان کی آل پر بے شمار رحمت نازل فرما

    بس ان کے صدقے اپنے کرم و بخشش کو میری خطاؤں کا شفیع قرار دے

    اپنے فضل سے میرے گناہوں کو بخش دے

    جس سزا کی میں سزاوار ہوں وہ ‎سزا نہ دے

    اپنا دامن کرم مجھ پر پھیلا دے

    اپنے پردہ عفوورحمت میں مجھے ڈھانپ لے

    اور مجھ سے اس ذی اقتدار کا سا برتاؤ کر

    جس کے آگے کوئی ذلیل گڑگڑائے تو وہ اس پر ترس کھائے

    اس دولت مند کا سا

    جس سےکوئی محتاج لپٹے تو وہ سہارادے کر کھڑا کر دے

    اے میرے معبود !

    مجھے تیرے عذاب سے کوئی پناہ دینے والا نہیں ہے

    اب تیری قوت و توانائی ہی پناہ دے تو دے

    تیرے یہاں کوئی میری سفارش کرنے والانہیں

    اب تیرا فضل ہی سفارش کرے تو کرے

    میں کیا کروں میرے گناہوں نے مجھے ہراساں کر دیا ہے

    اب تیرا عفو و درگذر ہی مجھے مطمئن کرے تو کرے

    میرے معبود !

    جو کچھ میں تجھ سے کہہ رہی ہوں

    اس لۓ نہیں کہ میں اپنی بداعمالیوں سے ناواقف ہوں

    اس لۓ نہیں کہ میں اپنی بدکاریوں کو فراموش کر چکی ہوں

    بلکہ اس لۓ پکار رہی ہوں ۔۔کہ ۔۔۔۔

    تیرا آسمان اور جو اس میں رہتے سہتے ہیں

    تیری زمین اور جو اس پر رہتے بستے ہیں

    وہ سب میری توبہ کو سن لیں

    وہ سب میری ندامت کو دیکھ لیں

    شاید کہ کسی کو میری حالت زار پر رحم آجائے

    شاید کہ کسی کا دل میری پریشان حالی پر پسیج جائے

    شاید کہ کوئی میرے حق میں دعا کردے

    تیری بارگاہ اقدس میں شنوائی ہو جائے

    یا ایسی سفارش مجھے میسر ہوجائے

    جو درخواست سے زیادہ موثر ہو جائے

    اور

    تیری رحمت مجھ گنہگارپر مہربان ہو جائے

    تیرے غضب سے نجات کی سبیل ہو جائے

    تیری خوشنودی کا پروانہ کفیل ہو جائے

    اے اللہ !

    اگر تیری بارگاہ میں ندامت و پشیمانی ہی توبہ ہے

    تو میں پشیمان ہونے والوں میں سب سے زیادہ ہوں

    اگر ترک معصیت ہی توبہ و انابت ہے

    تو میں توبہ کرنے والوں میں اوّل درجہ پر ہوں

    اگر طلب مغفرت گناہوں کو زائل کرنے کا سبب ہے

    تو مغفرت کے طلبگاروں میں سے ایک میں بھی ہوں

    اے میرے خدا !

    تو نے ہی توبہ کا حکم دیا ہے اور قبول کرنے کا ذمہ لیا ہے

    مجھے دعا پر آمادہ کیا ہے اور قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے

    اے رحمان و رحیم

    رحمت نازل فرما محمد اور ان کی آل پر

    اور ان کے صدقے میری توبہ کو قبول فرما

    مجھے

    اپنی رحمت سے ناامیدی کے ساتھ نہ پلٹا

    تو ہم گنہگاروں کی توبہ قبول کرنے والا ہے

    رجوع ہونے والے خطاکاروں پر رحم کرنے والا ہے

    اے اللہ !

    محمد اور ان کی آل پر بےشمار رحمت نازل فرما

    جن کے وسیلہ سے تو نے ہماری ہدایت فرمائی ہے

    جن کے ذریعہ ہمیں گمراہی کے بھنور سے نکالا ہے

    اے میرے معبود!

    محمد اور ان کی آل پر بےشمار رحمت فرما

    ایسی رحمت

    جو قیامت کے روز اور تجھ سے احتیاج کے دن ہماری سفارش کرے

    اس لئے کہ

    تو ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے اور یہ امر تیرے لۓ سہل و آسان ہے

    ( ڈاکٹر نگہت نسیم۔سڈنی )

    معزز احباب سے التماس دعا ہے کہ رمضان المبارک کے اس مغفرت اور توبہ کے آخری عشرے میں مجھے اور میرے اہل خانہ کو اپنی دعاؤں میں ضرو یاد رکھئے گا۔۔ میں آپ سے التجا کرتی ہوں کہ اگر میری کوئی بات لکھی ہوئی یا کہی ۔ میرا کوئی بھی رویہ آپ کو گراں گزرا ہو مجھے اپنی کشادہ قلبی سے معاف فرما دیجئے ۔۔۔ جزاک اللہ ۔۔۔۔ بے شک اللہ رحمان رحیم معاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *